Sonntag, 17. Juli 2011

دُھند کاسفر

دُھند کاسفر

کسی کا جھوٹ جب اس عہد کی سچائی کہلایا
ہمارا  سچ  تو  خود  ہی  موردِ الزام  ہونا  تھا

’’گاڑی ٹھہرانا مقصود ہوتو زنجیر کھینچئے۔

بلاوجہ زنجیر کھینچنے والے کو پچاس روپے جرمانہ ہوگا۔‘‘
میں ٹرین کے ڈبے میں لکھی یہ تحریر حیرت سے پڑھتا ہوں اور اس کے اوپر لٹکی ہوئی زنجیر کو دیکھتا ہوں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ زنجیر کھینچنے سے یہ گاڑی کیسے رک سکتی ہے۔
آپی اپنی سیٹ پر بیٹھی ٹانگیں ہلارہی ہے۔
بلوساتھ والی مسافر خواتین کو مختلف چیزیں کھاتا دیکھ کر امی کو مخاطب کرتی ہے اور پھر ہنسنا شروع کردیتی ہے۔
’’امی....ہیں ہیں ہیں‘‘
امّی اسے گھورتی ہیں مگر ڈھائی سال کی بچی کو کیا پتہ کہ ماں کیوں گھور رہی ہے۔ امی نے اپنے ساتھ موجود بڑے سے تھیلے سے کھانے کی کچھ چیزیں نکال کر بلو اور آپی کو دی ہیں۔ آپی میرے حصے کی چیز لاکر مجھے دینے لگتی ہے۔
دوسال پہلے کی بات ہے جب ہم چار سال اور تین سال کے تھے۔ تایاجی ہمارے ہاں آئے تھے۔ پھر تھوڑی دیر کے لئے کہیں باہر چلے گئے تو آپی نے اور میں نے مشترکہ طورپر سوچا کہ ہمارے تایاجی گم ہوگئے ہیں اور پھر صلاح کی کہ ہم دونوں چل کر انہیں ڈھونڈتے ہیں۔ ہم بڑی خاموشی سے گھر سے نکل آئے۔ قریبی بازار تک آئے۔ پھر پتہ نہیں کیا ہوا۔ راستے گم ہونے لگے اور تایاجی کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہم خود گھر کا راستہ بھول گئے، نہ تایاجی ملے نہ گھر کا راستہ۔ سڑک کے کنارے کھڑے ہوکر ہم دونوں نے رونا شروع کردیا۔کسی شریف دوکاندار نے ہمیں اپنی دوکان پر بٹھالیا اور ڈھیر ساری مٹھائی بھی ہمارے سامنے رکھ دی۔ ہم نے مٹھائی کھانے کے ساتھ رونے کا عمل بھی جاری رکھا تاوقتیکہ تایاجی اور اباجی ہمیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہاں تک نہ آگئے۔ تب ہم مارے خوشی کے باقی مٹھائی اٹھانا بھی بھول گئے۔
’’بھائی! یہ لونا اپنی چیز۔ ‘‘
آپی کی آواز میں جھنجھلاہٹ ہے اور میں چونک اٹھتا ہوں۔
’’جی ۔ہاں۔آں۔‘‘میں اپنے حصے کی چیز لیتا ہوں اور پھر اسے وہ زنجیر اور اس کے نیچے لکھی تحریر دکھاتاہوں وہ بھی حیران ہوتی ہے مگر اس طرح ڈرکرامی کے پاس بھاگ جاتی ہے، جیسے اس کے دیکھنے سے ہی زنجیر کھنچ جائے گی اور گاڑی رک جائے گی.... بلو اپنے حصے کی چیز کھا کر پھر ان خواتین کی طرف دیکھتی ہے جو مسلسل کچھ نہ کچھ کھائے جاری ہیں اور پھر ’’امی..... ہیں ہیں ہیں‘‘ کی گردان شروع کردیتی ہے۔ امی پھر تھیلے میں ہاتھ ڈالتی ہیں۔
میں ان خواتین کی طرف دیکھتاہوں۔ ان میں سے ایک بے حد خوبصورت عورت مجھے بڑے غور سے دیکھ رہی ہے۔ مجھے عجیب سا محسوس ہوتاہے۔ اس کی نگاہوں سے سورج کی کرنیں میری جسم پر اترنے لگتی ہیں اور میں جیسے ایک دم جوان ہونے لگتاہوں۔ پانچ سے دس، دس سے پندرہ، پندرہ سے بیس اور بیس سے پچیس۔ اب میں پچیس سال کا بھرپور جوان ہوگیاہوں۔ مگر گاڑی کا سارا منظر بدل چکا ہے۔ زنانہ ڈبہ کی بجائے مردانہ ڈبہ ہوگیاہے۔ میرے پاس سیٹ بھی نہیں ہے۔ فر ش پر اکڑوں ہو کر بیٹھا ہوں اور سارے فرش پر بھی اتنا رش ہے کہ بیٹھے بیٹھے پہلو بدلنا مشکل ہے۔
ایک اسٹیشن پر مسافروں کاایک بڑا تیز ریلااندر آتا ہے۔ چھوٹے سے اسٹیشن پر اتنے مسافر!..... شاید کوئی بارات ہو۔ !گاڑی چلتی ہے تو مسافروں کے اوسان بحال ہونے لگتے ہیں۔ ایک مسافر نے ٹرین کے چیکر کو ایک ایسی گالی دی ہے کہ میرے چودہ طبق روشن ہوگئے ہیں۔ دوچار اور مسافروں نے بھی ایسی ہی گالیاں دیں تو پتہ چلاسارے بے چارے فرسٹ کلاس کے فرش پر بیٹھے تھے۔ سب سے دس دس روپے جرمانہ وصول کرکے بغیر رسید کے سب کو اس ڈبے میں دھکیل دیاگیاہے۔
گالیوں کا سلسلہ بڑھنے لگتاہے۔گالیاں ریلوے کے مختلف افسران سے ہوتی ہوئی ریلوے کے چیئرمین تک پہنچ چکی ہیں۔پھر وزیر ریلوے بھی اس کی زد میں آجاتے ہیں۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ بالکل میرے قریب بیٹھے ہوئے ایک ’’یک چشم‘‘ داڑھی والے نے دانت پیستے ہوئے بابائے قوم کو بھی گالی دے دی ہے۔میں سنّاٹے میں آگیاہوں۔
اس کی بدزبانی پر کوئی احتجاجی آواز بھی نہیں ابھری۔
مجھے لگتاہے ہم سب زمین میں دھنستے جارہے ہیں۔
گردن تک ہم زمین میں دھنس گئے ہیں۔
میرے اندرکاوہ پانچ سالہ بچہ نکل کر زنجیر کے پاس جا کھڑا ہوا ہے اور میرے اشارے کا منتظر ہے۔ میں اس یک چشم داڑھی والے کو سخت لعن طعن کرتاہوں۔
’’بابائے قوم کاکیا قصورہے؟ یہی کہ اس نے تمہیں آزادی دلائی ہے..... میں لمبی چوڑی تقریر کرتاہوں۔ مگر وہ یک چشم داڑھی والا بڑی متانت سے پھر وہی گالی بابائے قوم کا نام لے کر دہراتاہے۔
آخر میں اپنے اندر کے اس پانچ سالہ بچے کو اشارہ کرتاہوں کہ وہ زنجیر کھینچ دے مگر اس دوران ہی ایک بے حد خوبصورت خاتون سے اس کی آنکھیں چار ہوتی ہیں اور وہ جوان ہونے لگتاہے۔ پہلے وہ زنجیر کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ اب اس خوبصورت خاتون کو حیرت سے دیکھ رہا ہے۔ میں خودآگے بڑھ کر زنجیر کھینچ دیتاہوں۔۔۔۔۔۔’’اس خبیث کو ابھی گرفتار کراتاہوں۔ ذلیل انسان بابائے قوم کے دیس میں بابائے قوم کو گالیاں دیتاہے۔ ‘‘
گاڑی رک گئی ہے۔ ریلوے گارڈ، ٹکٹ چیکر اور کچھ پولیس والے آ چکے ہیں۔ میں انہیں بتاتاہوں کہ اس ذلیل شخص نے بابائے قوم کی شان میں گستاخی کی ہے۔ مگر شاید ریلوے کے عملہ کو میری بات سمجھ نہیں آتی۔ گارڈ اور چیکر میری بات سے جھلاگئے ہیں۔
اور پھر چیکر میرے جرمانے کی رسید کاٹنے لگتاہے۔
پچاس روپے جرمانہ ادا کرتے ہوئے میرے ہونٹوں پر وہی گالی مچلتی ہے جو اس سے پہلے وہ یک چشم داڑھی والا بابائے قوم کے خلاف بکتارہاتھا۔ مگر میں گالی کو ہونٹوں پر اترنے سے پہلے ہی روک لیتاہوں۔ پتہ نہیں بابائے قوم کے احترام کے باعث یا ان پولیس والوں کے باعث جو ریلوے گارڈ اور ٹکٹ چیکر کے ساتھ کھڑے ہیں۔اتنا ضرور ہے کہ میں ایک دم چھوٹا ہوتا جارہاہوں اور گھٹتے گھٹتے ایک نقطے میں ڈھل گیا ہوں۔ زنجیر کے نیچے کھڑا پانچ سالہ ’’میں‘‘ پھر حیرت سے اس تحریر کو پڑھ رہاہوں۔
’’گاڑی ٹھہرانا مقصود ہوتو زنجیر کھینچئے
بلاوجہ زنجیر کھینچنے والے کو پچاس روپے جرمانہ ہوگا‘‘
بلواپنے حصہ کی چیز کھاکرپھر ’’امی.... ہیں ہیں ہیں‘‘ کی گردان کررہی ہے۔آپی میرے حصے کی چیز لے کر پھر مجھے دے رہی ہے ۔مگر میں اب دانستہ آپی کی بات نہیں سن رہا کیونکہ مجھے معلوم ہے اس کے بعد ہی میری نظر اس خوبصورت خاتو ن کی طرف اٹھ جائے گی جو بڑی دیر سے مجھے دیکھ رہی ہے اور پھر....اور پھر میں خوف سے اپنی آنکھیں بند کرلیتاہوں اور بند آنکھوں سے ہی پڑھنے لگتاہوں:
’’گاڑی ٹھہرانا مقصود ہوتو زنجیر کھینچئے
بلاوجہ زنجیر کھینچنے والے کو پچاس روپے جرمانہ ہوگا۔
‘‘
***

Keine Kommentare:

Kommentar veröffentlichen