Sonntag, 17. Juli 2011

غریب بادشاہ

غریب بادشاہ

جو تجھ کو ملنے سے پہلے بچھڑ گیا حیدر
تو کس طرح اسے پانے کی آس رکھتا ہے

’’تساں بادشاہ ہواساں کوں غریبی‘‘

چلچلاتی دھوپ میں صرف ایک دھوتی میں ملبوس، سجدہ ریز اور دونوں ہاتھ جوڑ کر آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے، پسینے سے شرابور اس مجہول سے فقیر نے جس انداز میں یہ مصرعہ گاتے ہوئے پڑھاہے اس کا ایک ایک لفظ اپنی تمام تر معنویت کے ساتھ میری روح میں اتر گیا ہے۔ میں رک گیا ہوں اور حیرت سے اس مجہول فقیر کو دیکھ کر اپنی جیب میں ہاتھ ڈالتاہوں اور ایک سرخ نوٹ اس کے جوڑے ہوئے ہاتھوں میں پھنسادیتاہوں..... ماہ رخ نے میری اس سخاوت کو حیرت سے دیکھا ہے لیکن بولی کچھ نہیں۔ اس کے قرب سے مجھے لگتا ہے میں سچ مچ کا بادشاہ ہوں۔
**
’’میں جب بھی اس شہر میں آتاہوں یہاں کی کوئی نہ کوئی شے مجھے متاثر کرلیتی ہے، ہلاکر رکھ دیتی ہے‘‘
’’مثلاً؟‘‘
’’مثلاً..... پہلی بار جب میں آیا تو اپنی فرم کی طرف سے کمرشیل وزٹ پر آیا تھا مگر یہاں تم سے نہ صرف ملاقات ہوگئی بلکہ پہلی ملاقات میں ہی اتنی فرینک نیس ہوگئی جیسے ہم ازل سے ایک دوسرے کے ساتھی ہوں۔‘‘
’’ہوں!.....اور اس بار؟‘‘
’’اس بار.....اس مجہول فقیر کے گنگناتے ہوئے بول نے مجھے ہلاکر رکھ دیا ہے‘‘
’’کیاواقعی تم اس سے متاثر ہوگئے ہو؟‘‘
’’یقین کرو نہایت عجیب اور انوکھا سرور محسوس کررہاہوں۔‘‘
’’شاید تمہیں فو ک سانگس سے دلچسپی ہے!‘‘
’’ہاں شاید یہی وجہ ہو یا شاید.....‘‘
’’میں تمہارے لئے اس طرح کے گیتوں کی ایک کیسٹ تیار کروالوں گی لیکن تمہاری اتنی گہری دلچسپی کا آخر کوئی جواز بھی تو ہوگا؟‘‘
میں ماہ رخ کی طرف دیکھتا ہوں وہ پورے انہماک سے میرے جواب کی منتظر ہے۔
’’فوک سانگس سے میری دلچسپی کا پس منظر بڑا عجیب سا ہے۔
ایک دفعہ میں اپنے ایک دوست کے ہاں بھٹہ واہن گیا۔ وہاں مجھے پتہ چلا کہ سسّی کی جنم بھومی بھٹہ واہن تھی۔ وہاں کے راجہ کی بیٹی، سسّی جسے راجہ نے نجومیوں کے مشورے کے بعد صندوق میں بند کرکے دریا کے دھاروں کے سپرد کردیاتھا اور یوں وہ بھٹہ واہن سے بھنبھور پہنچ گئی۔‘‘

میں سسّی کی طرف دیکھتا ہوں وہ پورے انہماک سے اپنی داستان سن رہی ہے:

’’وہاں تمہاری پیدائش محل کے جس حصے میں ہوئی تھی اس کے کھنڈرابھی تک موجود ہیں۔ میں اس جگہ گیا تو میرا دل بھر آیا۔ روشنی کی ایک لکیر میرے اندر سے پھوٹی اور مجھ پر منکشف ہوا کہ میں ہی پنوں تھا۔ جو تمہیں تلاش کرتے ہوئے اس کھنڈر تک پہنچ گیا ہوں لیکن روشنی کی لکیر جو میرے اندر سے پھوٹی تھی وہ ایک دائرہ بن کر مجھے منور کرنے لگی تو مجھے محسوس ہوا کہ میں ہی پنوں تھا اور میں ہی مجنوں تھا، میں ہی فرہاد تھا اور میں ہی رانجھا تھا،میں ہی کرشن تھا اور میں ہی مہندرا تھا..... میں ہر روپ میں تمہیں ڈھونڈتا تھا اور تمہارے جتنے بھی نام تھے سسّی، لیلیٰ، شیریں، ہیر، رادھا۔ مومل سب ایک تھے اور میرے بھی جتنے نام ہیں سب ایک ہیں.... لیکن ہم صدیوں سے ایک دوسرے کی تلاش اور جستجو میں حصے بخرے ہوتے چلے جارہے ہیں اور ہمارے ہر حصے میں دکھ کی ایک کہانی بنتی چلی جارہی ہے۔۔۔۔۔۔‘‘
’’بھئی!یہ کیا حماقت ہے؟.....ہم لوگ کتنی دیر سے تمہارا انتظار کررہے ہیں کھانا ٹھنڈا ہورہاہے۔‘‘ماہ رخ کی چہکار نے مجھے جاگتی نیند سے بیدار کردیاہے۔ میں بے جان مسکراہٹ کے ساتھ اس کی طرف دیکھتا ہوں اور پھر ڈائننگ روم کی طرف چلنے لگتا ہوں۔
کھانے کے دوران ماہ رخ کے پاپانے کارخانوں کی پیداواری صلاحیت بڑھانے کا مسئلہ چھیڑاتو ماہ رخ نے کہا:
’’اس کے لئے مزدورکواعتماد میں لینا ضروری ہے۔ جب تک اسے شرکت کا احساس نہ دلایاجائے گا تب تک کارخانوں کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ نہیں ہوسکتا‘‘
’’نوجوانی میں پڑھے لکھے ذہنوں کو سوشلزم کا طلسم متاثر ضرور کرتاہے، پختگی آنے سے پہلے نوجوان ایسی ہی جوشیلی باتیں کرتے ہیں..... ا س بحث سے ہٹ کر دیکھیں تو آج کے مزدوروں کی فطرت کا یہ عالم ہے کہ ان کی دائیں مٹھی میں نوٹ دے دیں تو بایاں ہاتھ آگے کردیں گے، بائیں ہاتھ کو بھردیں تو دایاں ہاتھ آگے کردیں گے۔ جہاں نوٹ ملنے میں اسٹاپ آیاوہیں حق تلفی کے نعرے گونجنے لگیں گے۔‘‘
ماہ رخ کے پاپا کے لفظوں سے ایک منجھے ہوئے کارخانہ دارکی شخصیت اپنی جھلک دکھا رہی تھی ۔
’’میرا خیال ہے مل مالکان اور مزدوروں میں فاصلہ ملز انتظامیہ کی بداندیشی سے پیداہوتاہے۔ انتظامیہ کے افسران کی غلط پالیسیاں بھی نفاق کا باعث بنتی ہیں مثلاً میرے اِدارہ کے میرے ایک کولیگ جو ایک دوسرے ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ ہیں ان کی پالیسی یہ ہے کہ مہینے میں ایک دو بار ہر مزدور کو کسی سبب سے یا بلا سبب جھاڑضرور پڑنی چاہئے اس طرح یہ لوگ اپنی اوقات میں رہتے ہیں‘‘
’’کتنی گھٹیا ذہنیت ہے ایسے لوگوں کی‘‘ ماہ رخ اس وقت کسی کارخانہ دار کی بیٹی کی بجائے کسی مزدور یونین کی لیڈر لگ رہی تھی....’’بر صغیر کی تاریخ میں.....‘‘
لیکن اس سے پہلے کہ مزدوروں اور کارخانہ دار کا مسئلہ کوئی سنگین صورت اختیار کرتا ماہ رخ کے پاپا ہنستے ہوئے معذرت کرکے اٹھ گئے اور برصغیر کی تاریخ کے تذکرے سے بات کا رخ ہندوستانی کلچر اور تہذیب کی طرف مڑ گیا،
’’قدیم کلچر آج بھی کسی نہ کسی روپ میں ہمارے ساتھ ہے۔ جذباتی نعرے بازی کرکے اس سے فرار حاصل نہیں ہوسکتا۔ ہماری پیدائش سے لے کر شادی، بیاہ اور مرگ تک کی رسومات پر قدیم ہندوستانی کلچر کی چھاپ اتنی گہری ہے کہ کھرچنے سے بھی ختم نہ ہو۔‘‘
’’یہ ٹھیک ہے۔ لیکن اب ہماری اپنی تہذیب کا رنگ جمتا جارہاہے، اور ہماری اپنی تہذیب اس سے زیادہ خوبصورت ہے‘‘
’’یہ تہذیب بھی اس کلچر کے اثرات سے خالی نہیں،کلچر گم نہیں ہوتا بلکہ قدرے مختلف روپ میں پھر سامنے آجاتاہے۔‘‘
’’بابا!اس میں کلچر کاکیاکمال ہے۔ یہ تو دھرتی کا کمال ہے۔ جغرافیے کا کمال ہے۔ یہاں کی مٹی،یہاں کے دریا، پہاڑ، کھیت، جنگل، آب و ہوا، انہیں سے ہی تمہارے قدیم کلچر کی تشکیل ہوئی تھی اورانہیں عناصر ہی سے ہمار ی تہذیب بن رہی ہے اس میں جغرافیے کے ساتھ ساتھ ہماری ہسٹری بھی شامل ہوگئی ہے‘‘
اور پھر بحث اس اتفاق پر ختم ہوئی کہ قدیم ہندوستانی کلچر کے ایک مخصوص موضوع ’’رسم شادی‘‘ پر ایک تازہ ویڈیو فلم دیکھی جائے۔
**
گھنے جنگل کے درمیان ایک وسیع و عریض میدان،
گہری تاریک رات،
میدان کے ایک سرے پر ایک چبوترے پر قبیلے کا سردار اپنی قبائلی آن بان کے ساتھ براجمان ہے۔ اس کے پیچھے، دائیں بائیں جری کمان دار چوکس کھڑے ہیں۔ میدان کے وسط میں آگ کا بہت بڑا الاؤ روشن ہے۔ سردار کے دائیں ،بائیں دونوں اطراف سے لے کر میدان کے دوسرے سرے تک الاؤ کے گرد لوگوں کاایک دائرہ سا بن گیاہے، لوگوں نے اپنے سیاہ چہروں پر چکناہٹ مل کر خود کو چمکایا ہوا ہے، ڈھولک کی تھاپ گونجتی ہے اور پھر گونجتی ہی چلی جاتی ہے۔ پھر اس تھاپ کے ساتھ ایک عجیب سا سازاُبھرتا ہے۔ مجھے لگتا ہے میں اس ساز سے واقف ہوں لیکن کچھ یاد نہیں پڑتا۔ عجیب سا ساز ہے،ایک لمحے میں روح کی پاتال تک اتر جاتاہے اور دوسرے لمحے میں خوفزدہ کردیتا ہے۔ مسرت اور خوف کی عجیب سی کشمکش..... اچانک قبیلے کے سردار کی پاٹ دار آواز گونجتی ہے اور ڈھولک اور ساز کی آواز قدرے مدھم ہوجاتی ہے۔ سردار نے پتہ نہیں کیا کہا ہے ۔ ایک نوجوان لڑکی شرمائی شرمائی سی، اپنے ہاتھ میں موتیوں کی مالالئے آگے بڑھنے لگتی ہے۔
قبیلے کے سردار نے پھرکچھ کہاہے اور اب دو نوجوان لڑکے ایک ساتھ آگے بڑھ آئے ہیں۔ ڈھولک کی تھاپ اور اس مانوس سے ساز کی آواز ایک دم تیزہوجاتی ہے۔ جلتے ہوئے الاؤ کی سرخ زبانیں کچھ اور لمبی ہوگئی ہیں۔ وہ نوجوان لڑکی دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی ان نوجوانوں کی طرف بڑھ رہی ہے... اب وہ دونوں کے رو برو کھڑی ہے۔ دونوں نوجوانوں کے اوپر کے سانس اوپر اور نیچے کے سانس نیچے رک گئے ہیں.... ڈھولک کی تھاپ اور اس ساز کی آواز کچھ اور تیز ہوجاتی ہے۔ اور پھر.... لڑکی نے ایک نوجوان کے گلے میں ہارڈال دیا۔
مجھے پتہ نہیں کیاہوا، میں نے تیزی سے اٹھ کر وی سی آر کا سوئچ آف کردیا۔
’’یہ کیا؟‘‘ ماہ رخ نے الجھے ہوئے انداز میں پوچھا۔
’’بس۔اب آگے اس ہار جانے والے نوجوان کا حال نہیں دیکھا جائے گا۔ بے چارہ!‘‘
’’اس میں بے چارگی کی کیا بات ہے۔ قدیم ترین زمانوں میں تو لڑکی کے سارے امیدوار لڑتے تھے، ایک دوسرے کو قتل کرتے تھے۔ جو آخر میں فتح یاب ہوتاتھا وہ شادی کا حق دار بنتا تھا۔ یہ تو اس زمانے کے بعد کی فلم ہے‘‘
**
ماہ رخ کے پاپا کی فیکٹری سے متعلق ہمارے ادارے کا کام آج مکمل ہوگیاہے اورآج ہی میرا واپسی کا ارادہ ہے تاہم میں نے طے کیاہے کہ جانے سے پہلے ماہ رخ سے شادی کے مسئلہ پر بات کرہی لوں۔ ہماری دوستی جتنی تیزی سے بڑھی ہے اس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ہمیں رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوجانا چاہیے۔ یوں بھی آج صبح سے ہی ماہ رخ خاصے خوشگوار موڈ میں ہے۔ اس پیش کش سے اس کا خوشگوار موڈرومینٹک بھی ہوجائے گا۔
’’کیا تمہیں پتہ ہے میں اپنے مذہبی تہوار منانے کے ساتھ ساتھ دوسروں کے مذہبی تہوار بھی اسی عقیدت اور احترام کے ساتھ مناتی ہوں۔ کرسمس، بیساکھی، دیوالی......‘‘
’’یہ بڑی اچھی بات ہے اگر ساری قومیں اسی طرح ایک دوسرے کے جذبات کا احترام کرنے لگیں تو دنیا میں مذہب کے نام پر کبھی کوئی فتنہ فساد پیدا نہ ہو‘‘
’’آج کا دن میرے لئے دوہری خوشی لایا ہے۔ ایک تو یہ کہ آج بھی ایک تہوار ہے اور دوسری یہ کہ آج ہم ایک مقدس رشتے میں منسلک ہونے کا اقرار کریں گے‘‘
(مقدس رشتے کی بات سن کر میرادل مارے خوشی کے دھڑکنا بھول گیاہے، واقعی دل کو دل سے راہ ہوتی ہے۔ میں نے آج خود ماہ رخ سے رشتے کی بات چھیڑنی تھی مگر میرے بات کرنے سے پہلے وہ خود یہی بات طے کرچکی ہے)
’’میں نے کئی نوجوان دیکھے ہیں مگر کوئی بھی میرے معیار پر پورا نہیں اُترا۔ تم پہلے نوجوان ہو جس کی آنکھوں کی سچائی کو میرے دل نے تسلیم کیاہے اور جو صحیح معنوں میں میرے کڑے معیار پر پورا اُتراہے‘‘
(میرے انگ انگ میں مسرّت بھر گئی ہے)
’’میں نے ابھی ڈیڈی سے بات کی تھی وہ بھی میرے انتخاب پر بے حد خوش ہیں‘‘
(مسرّت میرے انگ انگ میں لبالب بھرنے کے بعد اب ندی کے دھاروں کی طرح چھلکنے لگ گئی ہے)
’’لاؤ اپنا ہاتھ اِدھر لاؤ‘‘
میں نے آنکھیں موند کر اپناہاتھ اس کی طرف بڑھادیاہے۔ بے خودی اور سر شاری کی کیفیتیں مجھے شرابور کررہی ہیں۔
’’آج کے دن بہنیں اپنے بھائیوں کو راکھی باندھتی ہیں۔ میرا کوئی بھائی نہیں جسے میں راکھی باندھتی لیکن آج میری زندگی کا یہ ادھوراپن ختم ہورہاہے‘‘
میرے دل ،دماغ اور سماعت پر سینکڑوں ایٹم بم گر گئے ہیں۔ آنکھیں کھول کر دیکھتا ہوں تو آنکھوں پر بھی ہزاروں ایٹم بم گر گئے ہیں۔ اس نے مجھے راکھی کے بندھن میں باندھ لیاہے،،
میرے اندر ایک گھناجنگل اُگ آیاہے اور جنگل کے درمیان ایک وسیع میدان میں (میرے سینے کے عین وسط میں) آگ کا ایک بہت بڑا الاؤ روشن ہے۔ سارا قبیلہ جمع ہے۔ ڈھولک کی تھاپ تیز ہوگئی ہے اور اس کے ساتھ ہی اس ساز کی آواز بھی تیز ہوجاتی ہے جو ایک لمحے میں روح کی پاتال تک اُتر جاتاہے اور دوسرے لمحے میں خوفزدہ کردیتاہے، میں اس ساز کو اب پوری طرح جان گیاہوں سب کچھ یاد آگیاہے۔ لڑکی نے موتیوں کا ہار دوسرے نوجوان کے گلے میں ڈال دیاہے، میں اپنی شکست کا منظر نہیں دیکھنا چاہتامگر اب وی سی آر کا سوئچ تو نہیں جسے آف کرکے فرار ممکن ہوسکتاہے۔ میرے اندر اور باہر میری شکست کے منظر ہیں۔
ماہ رخ نے سچ کہا تھا’’کلچر گم نہیں ہوتا بلکہ قدرے مختلف روپ میں پھر سامنے آجاتاہے‘‘
**
چلچلاتی دھوپ میں صرف ایک دھوتی میں ملبوس ،سجدہ ریز اور دونوں ہاتھ جوڑ کر آسمان کی طرف اُٹھائے ہوئے ،پسینے سے شرابور وہ مجہول فقیر اب بھی وہی مصرعہ گاتا چلا جا رہا ہے:
’’تساں بادشاہ ہو اساں کوں غریبی‘‘
میں نے پرس میں صرف واپسی کے کرائے کے پیسے رکھے ہیں اور جیبوں تک سے نکال کر سارے چھوٹے بڑے نوٹ اس فقیر کو دے دیئے ہیں۔
ماہ رخ نے تعجب سے مجھے دیکھ کر پوچھا ہے ’’یہ کیا؟‘‘
’’صرف واپسی کا کرایا‘‘
’’تساں بادشاہ ہو اساں کوں غریبی‘‘
اس عارفانہ کلام کی ایک نئی معنویت مجھ پر آشکار ہوتی ہے۔
ماہ رخ کے قرب سے میں اب بھی خود کو بادشاہ محسوس کرتاہوں مگر غریب بادشاہ
***

Keine Kommentare:

Kommentar veröffentlichen