Sonntag, 17. Juli 2011

دوہزار سات سو پچاس سال بعد

دوہزار سات سو پچاس سال بعد

اب آگے رُخ یہ کونسا کرتی ہے اختیار
حیدر ؔ یہ منحصر ہے مری داستان پر

میں وہ اوڈیس ہوں جسے کوئی ہومرنصیب نہیں اس لیے مجھے اپنے کردار کے علاوہ ہومر کے حصے کا کام بھی خود کرناہے۔ کئی صدیوں کے بعد جب تاریخ پھر اپنے آپ کو دہرانے لگی ہے تو سب کچھ عین اسی طرح نہیں ہے جیسا پہلے تھا۔ تاہم تاریخ کے مرکزی کردار تھوڑے بہت فرق کے ساتھ بڑی حد پہلے جیسے ہیں۔ واقعات کی نوعیت میں بعض بنیادی تبدیلیاں آئی ہیں اس کے باوجود واقعات کا انجام بہرحال پہلے سے کہیں بہتر ہونے کی امید ہے۔
اس بار ٹرائے کے بادشاہ پرائم کے بیٹے شہزادہ پیرس نے مینی لئیس کی بیوی ہیلن کو اغوانہیں کیا اس لئے ایگامیمنن کو دس سال تک ٹرائے کا محاصرہ کرکے بھائی کی اہانت کا انتقام لینے کی کوئی ضرورت پیش نہیں آئی۔لیکن المیہ یہ ہے کہ اس کی بیوی کلائی ٹمنسٹرا سے اس کے شدید اختلاف پیدا ہوگئے ہیں۔ یہ اختلافات بڑی حد تک اجستھس کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ تاہم اس بار وہ ایگامیمنن کو قتل کرانے کی بجائے اس سے باضابطہ طلاق حاصل کرکے اجستھس سے شادی کرلیتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ اس نے اپنے شوہر سے بے وفائی کی ہے لیکن کلائی ٹمنسٹراکا کہناہے کہ اس نے کوئی جرم یا گناہ نہیں کیا۔ جب ایگامیمنن سے نباہ نہیں ہوسکاتو اس سے علیحدگی اختیارکرکے کسی بہتر جگہ شادی کرلینا اس کا حق تھا۔ سو اس نے قانون کے دائرے کے اندر رہ کر قانونی تقاضوں کو پوراکرتے ہوئے اپنا حق استعمال کیاہے۔ اس بار میری بیوی پینی لوپی رشتے میں کلائی ٹمنسٹراکی سگی اور بڑی بہن ہے حسن و سیرت، شوہر پرستی، عفت و عصمت اور وفا پرستی کے سارے اوصاف پہلے کی طرح اب بھی اس میں موجود ہیں۔
سمندری دیوتاپوسی ڈان اس بار خود مصیبت میں گھِراہواہے۔ دراصل اس نے سمندر کی بعض بڑی مچھلیوں اور مگرمچھوں کو حد سے زیادہ اختیارات دے کر سر چڑھادیاتھا۔اس سے بعض ایسی خرابیاں پیدا ہوئیں کہ بعض بادشاہ بھی سمندری دیوتا کے مخالف ہوگئے اور اسے اپنے مرکز سے فرار ہوکر ایک محفوظ جگہ جاکر پناہ گزین ہونا پڑا۔ اس کے باوجود اس نے اپنی بعض قوتوں کے زورسے سمندر پر اپناا ثرو رسوخ قائم رکھا ہے البتہ اس کی غیر موجودگی کے باعث اس کی سرپر چڑھائی ہوئی بڑی مچھلیوں اور مگرمچھوں کو مزید کھُل کھیلنے کا موقعہ مل گیاہے۔
میں سمندری دیوتا کی صلاحیتوں، بالخصوص سیاسی صلاحیتوں کا معترف ہوں۔شاید میرے دل میں کہیں ابھی بھی اس کے لئے تھوڑی بہت محبت کے جذبات موجود ہوں۔پوسی ڈان کے دادا سے تو میں اب بھی متاثر ہوں۔ سمندری دیوتاسے میرے اختلاف کی دوبنیادی وجوہات ہیں۔ایک یہ کہ میں بڑی مچھلیوں اور مگرمچھوں کے بے جا اختیارات اور ظالمانہ اقدامات کی مذمت کرتاہوں۔ جبکہ سمندری دیوتا کا خیال ہے کہ ا سکے مقرر کردہ مشیروں کی مذمت کرنا خود دیوتا کی مذمت کرنے کے مترادف ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ سمندر کی گہرائی اور وسعت کے احساس کے باوجود میرا خیال ہے کہ سورج، سمندرسے کہیں زیادہ بڑا ہے۔ اسی لئے میں سمندری دیوتا کے مقابلہ میں سورج دیوتا کو کہیں زیادہ عظیم سمجھتاہوں۔
بس ایسے اختلافات کی بنیاد پر سمندری دیوتامیرامخالف ہوگیاہے۔ اس نے سمندری بلاؤں کو حکم دیاکہ مجھے ہلاک کردیں۔ سمندر کی بڑی مچھلیاں اور مگرمچھ تو مجھ پر پہلے ہی اُدھار کھائے بیٹھے تھے۔ حکم ملتے ہی مجھے ہلاک کرنے کے لئے لپکے۔ ان کے بڑے بڑے اور ہولناک جبڑوں سے پھسل کر میں ایک نوالے کی طرح ان کے حلق میں اترجاتالیکن شدید غصے کے باعث وہ میرے ٹکڑے کرکے اور مجھے چباچباکر کھانا چاہتے تھے۔ شاید ان کے ذہن میں یہ خوف ہوکہ اگر مجھے سالم نگل لیاگیاتو ہوسکتاہے یونس نبی کی طرح میں پھر زندہ نکل آؤں۔ یوں بھی انہیں نہ صرف میری ذاتی مظلومیت اور سچائی کااندرہی اندر احساس تھا بلکہ اپنی بعض ظالمانہ حرکات کا قدرتی ردِّعمل بھی وہ دیکھ چکے تھے لیکن بجائے شرمندہ ہونے کے میرے خلاف ان کا غصہ بڑھتاجارہاتھا۔ بہرحال مجھے ٹکڑے ٹکڑے کرکے کھانے کے شوق میں ان کا وارناکام ہوا اور میں بحفاظت سمندر میں سے نکل آیا۔
اسی دوران سمندری دیوتا کی طرف سے اور اس کے متعدد پجاریوں کی طرف سے پینی لوپی کو پیار، محبت کے ساتھ یہ احساس دلانے کی کوشش کی گئی کہ چونکہ میں سمندری دیوتاکاباغی اور دھتکاراہواہوں اس لئے وہ مجھ سے علیحدگی اختیارکرلے۔ اس بار ستم ظریفی یہ ہے کہ پینی لوپی خود سمندری دیوتاسے گہری عقیدت رکھتی ہے۔ اس کے خاندان کے سارے لوگ سمندری دیوتا کے پجاری ہیں۔تاہم پینی لوپی نے اس ساری صورت حال کے باوجود بڑی حکمت اور دانشمندی کے ساتھ اپنے اوڈیسس سے علیحدگی کا مطالبہ مسترد کردیا۔ اس دوران تماشہ یہ ہوا کہ جن پجاریوں نے پینی لوپی کو مجھ سے علیحدگی کا مشورہ دیاتھاان سب کے اپنے بیٹوں، بیٹیوں کے گھر اُجڑنے لگے۔ تب سمندری دیوتانے غضب ناک ہوکر میرے خلاف فرمانِ عام جاری کیالیکن اس فرمانِ عام کے جاری ہونے کے دوماہ کے اندر سمندر کے بعض حصوں میں ایسا شدید طوفان آیاکہ سمندرکی پوری تاریخ میں کبھی ایسی تباہی نہیں مچی۔سمندرکاایک چھوٹا سا حصہ اسکندریہ تو بالکل ہی برباد ہوگیا۔ تب سمندری دیوتا مزید غضبناک ہوااور اس نے اپنی قوت کے زور سے میری سلطنت اتھاکاکو اٹھایااور اسے سات سمندرپار پہنچادیا۔
پچھلی دفعہ میں رستہ بھٹک گیاتھاور مجھے اتھاکا پہنچنے میں دس سال لگ گئے تھے۔ اس بار اتھاکاکو مجھ سے دور کردیاگیاہے۔ بظاہر سات سمندر پارکرنے کے لئے مجھے سمندری دیوتاکی خوشنودی حاصل کرلینی چاہیے لیکن میں جانتاہوں کہ اب ہوائی جہاز کے ذریعے سات سمندرپارکاسفر گھنٹوں میں طے ہوجاتاہے۔اس دوران اگر سمندری دیوتانے اپنے سیاسی اور سازشی ذہن سے کام لے کر کہیں مجھے مزید الجھانے یا بلیک میل کرنے کی کوشش کی تو میں نے بھی ڈپلومیٹک رویہ اختیارکرنے کا ارادہ کررکھاہے۔یوں بھی کسی کو بلیک میل کرکے جھکانے والوں کی انا کی تسکین تو کبھی ہوہی نہیں سکتی۔
پچھلے دنوں پھر سمندری دیوتا کے ایک بے حد اہم پجاری سے اطلاع ملی تھی کہ پینی لوپی کو مجھ سے علیحدگی کامشورہ دینے کے لئے پھر ایک مشورت ہورہی ہے۔ لیکن یہ مشورہ جاری کرنے سے پہلے خود سمندری دیوتاکی بیوی کی موت واقع ہوگئی۔ میرا خیال ہے پوسی ڈان کو اب کائنات کے سب سے بڑے مالک کے نظام کی کچھ کچھ سمجھ آجانی چاہئے۔ یوں بھی جس قسم کا وہ دیوتاہے اس سے ملتی جلتی قوتیں تو خود میرے اندر بھی موجود ہیں۔ بہرحال مجھے اب سمندری دیوتاکا کوئی ڈرنہیں لیکن نئے زمانے کی بادشاہتوں نے اپنے اپنے قانون بنارکھے ہیں۔ ایک سلطنت سے دوسری سلطنت میں جانے کے لئے قانونی مرحلوں کو طے کرنا ضروری ہے۔ میرے نزدیک یہ انوکھے اور بے جا قوانین ہیں، تاہم مجھے اتھاکا پہنچنے کی کوئی جلدی نہیں ہے۔ پچھلی بار میں دس سال بھٹکنے کے بعد اتھاکا پہنچاتھا، اس بار مجھے علم ہے کہ میں اس مدت سے کہیں پہلے اپنے اتھاکاپہنچ جاؤں گا۔ لیکن جیسا کہ میں نے شروع میں کہا ہے، میں وہ او ڈیسس ہوں جسے کوئی ہومرنصیب نہیں۔ اس لئے مجھے ہومر کے حصے کا کام بھی خود کرنا ہے ہومرکے برعکس میری پریشانی یہ ہے کہ میری دونوں آنکھیں سلامت ہیں۔اور مجھے کسی بادشاہ سے انعام و اکرام بھی نہیں لیناہے۔ آنکھیں کھلی ہوں تو ’’دیکھنے‘‘ کا عذاب جھیلنا پڑتاہے۔ مجھے ابھی یہ عذاب جھیلناہے پھر اسے رقم کرناہے۔ مجھے اندازہ ہے کہ اس کے بعد ایک قیامت ٹوٹ پڑے گی لیکن مجھے یقین ہے کہ اسی قیامت میں کوئی طوفانی لہریاشدید تھپیڑا مجھے اتھاکا پہنچادے گا جہاں میرے عوام کے علاوہ میری پینی لوپی بھی شدت سے میرا انتظار کررہی ہے۔
تاریخ اپنے آپ کو دُہراتے ہوئے اپنے منطقی انجام کے مرحلوں کی طرف بڑھ رہی ہے۔ بے سروسامانی اور غیر یقینی حالات کے باوجود مجھے اب کوئی تشویش نہیں ہے، میں پیش آمدہ صورت حال کو اور تاریخ کے نتائج کو اب بند آنکھوں سے بھی دیکھ سکتاہوں کیونکہ میں ایسے دیوتاؤں یا ان کے ایسے پجاریوں کی طرح نہیں ہوں جنہوں نے تاریخ سے کبھی کوئی سبق نہیں سیکھا۔

***

Keine Kommentare:

Kommentar veröffentlichen