Sonntag, 17. Juli 2011

چند تاثرات

چند تاثرات

        میرے افسانوں کے بارے میں مختلف ادبی احباب نے مضامین،تبصروں اور خطوط کے ذریعے جو رائے پیش کی،اس کا ایک مختصر سا انتخاب ذیل میں پیش کر رہا ہوں۔       ح۔ق


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر وزیر آغا۔لاہور:

"پتھر ہوتے وجود کا دکھ"بہت عمدہ افسانہ ہے۔ اگر آپ اسی رفتار اور انداز سے آگے بڑھتے رہے تو بہت جلد صف اول کے افسانہ نگاروں میں شمار ہونے لگیں گے"۔

پروفیسرجیلانی کامران۔لاہور:

حیدرقریشی نے ان افسانوں کے ذریعے کہانی کے کینوس کو وسیع کرتے ہوئے نئے امکانات کی طرف اشارا کیا ہے اور اس سچائی کو نمایاں کیا ہے کہ لمِٹ سچوایشن کے دوران انسان صرف کرب ہی کی نمائندگی نہیں کرتا اور نہ اس کا وجود ہی پاش پاش ہوتا ہے بلکہ اس کے نطق سے اس کی اپنی تاریخ گفتگو کرتی ہے۔ ہمارا افسانہ تاریخ کے اس مکالمے سے شاید اب تک غافل تھا۔ حیدرقریشی نے اپنے افسانوں کی راہ سے تاریخ کے اس مکالمے کو سننے کی سعی کی ہے۔

جوگندر پال۔دہلی:

حیدر قریشی اسی وسیع تر زندگی کی دریافت کے لئے اپنی کہانیاں تخلیقتا ہے۔ اپنے اس کھلے کھلے راستے کو طے کر کے اسے دوریا نزدیک کسی شیشے کے محل میں اقامت نہیں اختیار کرنا ہے، بلکہ راستوں سے راستوں تک پہنچنا ہے اور ہر راستے پر تباہ حال زندگی کی باز آباد کاری کئے جانے ہے۔ وہ لکھ لکھ کر گویا کچھ بیان نہیں کر رہا ہوتا ، بلکہ اپنے لکھے ہوئے کو کر رہا ہوتا ہے اور اسے ایسا کرتے ہوئے پا کر بے لوث انسانی رشتوں پر باور کر لینا غیر مناسب معلوم نہیں ہوتا ۔

ڈاکٹر رشید امجد۔اسلام آباد:

حیدر قریشی کے افسانوں کا اختصار ، جملہ کی گرفت، ہر جملے کا دوسرے جملے سے ایسے جڑا ہونا جیسے زنجیر کی کڑیاں ہوں،مترنم لفظوں کا انتخاب اور کہانی کی مجموعی بُنت میں ماورائی تخلیقی ذہن ، ان کی شاعر ذات کی دین ہے۔ حیدر قریشی کے دونوں افسانوی مجموعے ان کے فنکارانہ سفر کے دو مرحلے ہیں ان میں ایک فنی اور فکری ارتقاء ہے جو ان کی اگلی منزل کی نشاندہی کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اردو افسانے کے مجموعی سفر میں بھی یہ دونوں مجموعے اپنی اہمیت اور پہچان رکھتے ہیں۔

دیوندراِسر۔دہلی:

حیدر قریشی کی کہانیاں ایک نئی تخلیقی روایت کی شروعات ہیں جو واقعاتی تسلسل اور کہانی پن پر مبنی ہو کر سوال، شک اور فکر کی بنیاد پر کہانی کا شفاف شیشا گھر تعمیر کرتی ہیں۔ اس شیشا گھر میں ہم داخل ہونے کے لئے آزاد ہیں لیکن اس سے باہر نکلنے کے رستے بند ہیں، صرف ایک چھوٹا سا روشن دان کھلا ہے، ہمارے دل کا ---جس میں نہ جانے کہاں سے روشنی کی کرن چھٹک کر آرہی ہے جس کے ساتھ ساتھ چل کر ہم وقت کے اس نقطہ پر پہنچتے ہیں جہاں سچ ہمارا منتظر ہے۔
جہاں سچ سے ہم معانقہ کرتے ہیں!

ڈاکٹر قمر رئیس۔دہلی:

"کہانیاں علامتی ہیں لیکن معاصرجدید کہانیوں سے الگ اور انوکھی۔ یہاں تاریخ کنگناتی ہے۔ انسانی تہذیب سرگوشیاں کرتی ہے اور ان کی کوکھ سے آج کے جلتے ہوئے مسائل پھنکار مارتے نکلتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ پرکشش کہانیاں جو سوچنے پر اکساتی ہیں"۔

ڈاکٹر انور سدید۔لاہور:

"حیدرقریشی بظاہر ادب کی کئی اضاف میں ایک طویل عرصے سے بڑی پختہ کاری سے تخلیقی کام کر رہے ہیں تاہم ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ افسانے کے دیار میں قدم رکھتے ہیں تو فطرت اپنے اسرار کی گتھیاں ان پر بانداز دگر کھولتی ہے۔ "روشنی کی بشارت"ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ہے لیکن وہ نئے افسانہ نگار نہیں۔ ان کا شمار ساتویں دہے کے ان افسانہ نگاروں میں کرتا مناسب ہوگا جو تجریدیت سے معنی کا نیا مدار طلوع کرتے اور سوچ کو نئی کروٹ دیتے ہیں۔
"روشنی کی بشارت" کے افسانوں میں حیدرقریشی کرنوں کے تعاقب میں سرگرداں نظر آتا ہے لیکن جب اسے سدھارتھ کا معصوم چہرہ نظر آجاتا ہے تو اسے اطمینان ہو جاتا ہے کہ اس کل جگ میں زندہ رہنے کا جواز موجود ہے۔ ترقی پسند افسانہ نگاروں نے اپنے نظریاتی انسان کو کلیت کے دائرے میں محصور کر دیا تھا۔ حیدرقریشی نے اس دائرے کو توڑ کر اس منفرد انسان کو پیش کیا ہے جو اپنے خالق کا نائب ہے اور جس کا وجود پوری دنیا میں ہر جگہ موجود ہے۔ "دھند کا سفر" "حوا کی تلاش" "گلاب شہزادے کی کہانی" "مامتا" "اپنی تجرید کے کشف کا عذاب" جیسے افسانوں میں حیدر قریشی نے اندھیرے سے روشنی کی جہت میں سفر کیا ہے۔ بے اطمینانی سے اطمینان کی دولت تلاش کی ہے۔ خود غرض انسان کا سامنا کرتے کرتے جب اس نے بے لوث اور بے ریا انسان سے ملاقات کر لی تو اس کا دل شانت ہوگیا۔ "روشنی کی بشارت"کے افسانے ایک ایسے فنکار کی تخلیقات ہیں جس نے روح اور مادے کو متصادم دیکھا اور عرفان کی منزل خود تلاش کی"۔

ڈاکٹر ڈیرک لٹل ووڈ۔برمنگھم یونیورسٹی:


Haider Qureshi146s splendid collection of short stories extends the range of contemporary Urdu writing available in English translation. Qureshi is a philosophical story teller who ranges from the Ramayana to ecological fables and reflections on the experience of immigrant workers in Germany.His is a singular voice which deserves a wider audience. These stories are thoughtful and full of interest.
Dr. Derek Littlewood (Birmingham, ENGLAND.)

عبداللہ جاوید۔کینیڈا:
’عمر لا حاصل کا حاصل ‘میں درج شدہ سارے افسانے پڑھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ انہوں نے اردو افسانے کی مروجہ حدوں کو پار کرنے کی ہمت جٹائی ہے ۔ اس سے قبل ہمت، جسارت اور بغاوت کے القاب ان افسانہ نگاروں کے لیے استعمال کیے جاتے رہے ہیں جو روایتی موضوعِ ممنوعہ یعنی جنس کو اپناتے تھے۔ جنس کے بعد سیاسی اور مزاحمتی موضوعات کا معاملہ آتا ہے۔ حیدر قریشی ان موضوعات کے دلدادہ نکلے جو مجذوبوں کو ساجتے ہیں۔ وہ ایسے سوالات کے جوابات کے متلاشی معلوم ہوتے ہیں جو قریب قریب لا جواب ٹھہرائے جاتے رہے ہیں۔ یہ بڑا کام ہے اور شاید اسی سبب سے ان کے مختصر لیکن ’بڑے افسانے‘ قاری کا تعاقب کرتے رہتے ہیں۔ آخری سطر پڑھنے پر بھی جان نہیں چھوڑتے سوچنے پر مائل اور دہرانے پر مجبور کرتے ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ حیدر قریشی کا افسانہ پڑھنا ایسا ہی ہے جیسے ذاتی زندگی کے کسی تجربے سے گزرنا ۔ا یسے تجربے سے جو سوچ ، کشف اور بشارت سے عبارت ہے۔

 
ڈاکٹر فہیم اعظمی۔کراچی:
"حیدر قریشی الہامی قصص ، اساطیر ، ذاتی اور معاشرتی مسائل کو آپس میں مدغم کر کے ایک ایسا آئینہ تخلیق کرتے ہیں جس میں پیدائش سے موت تک زندگی کا عکس نظر آتا ہے۔ بیشتر کہانیوں میں میجر کردار خود کہانی کار کی ذات ہوتی ہے اور اس طرح حیدرقریشی فلسفیانہ ،مذہبی اور اخلاقی قدروں پر رائے بھی دیتے ہیں تو کسی غیر متعلق یا خارجی خیال آرائی کا احساس نہیں ہوتا اور سب کچھ کہانی کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔
حیدرقریشی کی کہانیاں زمینی زندگی کے معمولی واقعات سے شروع ہوتی ہیں جنہیں فلو بیر کے لفظوں میں SLICES OF LIFEکہا جا سکتا ہے مگر ان میں جلد ہی مذہبی، عقیدتی اور رحانی رنگ بکھرنے لگتا ہے اور ان کی اٹھان عمودی ہوجاتی ہے۔ پھر ان کہانیوں کی فضا زمین اور آسمان کے بہت بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ اکثر کہانیوں کا اسلوب داستانی معلوم ہوتا ہے لیکن لہجہ کا دھیما پن، علامتوں ، تمثیلوں اور تلازمے کا استعمال انہیں داستانی رنگ سے الگ بھی کرتا ہے۔کہیں کہیں مذہبی عقائد کا اظہار بھی ہوتا ہے مگر جمالیاتی طور پر ان میں نہ کوئی خطابیت پیدا ہوتی ہے اور نہ کسی آئیڈیل یا انفرنل دنیا میں داخل ہونے کی ترغیب ہوتی ہے۔ حیدر قریشی کی کہانیوں میں زبان اور حوالہ جات اس وقت، زمانے اور علاقے کی حدوں کا تاثر ضرور دیتے ہیں جب اور جہاں ان کی کہانیوں نے جنم لیا کیونکہ اس سے کسی تخلیق کار کو مفر نہیں، لیکن ان کہانیوں کا مجموعی سپکڑم زمان اور مکاں کی قید سے آزاد ہوتا ہے اور دنیا کے کسی بھی حصے کا قاری ان کہانیوں میں امکانی سچائی دیکھ سکتا ہے"۔

پروفیسرڈاکٹر حمید سہروردی۔گلبرگہ:

"حیدرقریشی کے افسانے پر یم چند اور یلدرم کے اسلوب و مزاج کی آمیزش اور آویزش سے اپنا ایک نیا افسانوں مزاج اور ڈکشن تیار کرتے ہیں۔ ان کا تجربہ ہم سب کا تجربہ بن جاتا ہے۔ ان کی بصیرت تیز اور روشن ہے اور وہ افسانے کی میڈیم سے روزمرہ زندگی کے انگنت تجربوں کو کچھ اس طرح سے گرفت کرتے ہیں کہ زبان و قلب سے بے ساختہ حیرت اورا ستعجاب کے کلمات ادا ہوتے ہیں۔ حیدر قریشی اپنے رنگ و مزاج کو اپنے ہر افسانے میں افسانوی زبان کے تخلیقی و اکتسابی امتزاج کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ ان کی خوبی نہ صرف ڈکشن میں ہے بلکہ موضوعات کے برتاؤ میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔
میں ذاتی طور پر حیدرقریشی کو جدید تر افسانوی میدان میں کامیاب و کامران سمجھتا ہوں۔ ان کا یہی انداز توازن و تناسب کے ساتھ برتا جائے تو وہ اپنی انفرادیت برقرار رکھیں گے اور وہ حضرات جو جدید اور جدید تر افسانے کے باب میں شاکی ہیں اطمینان حاصل کرلیں گے"۔

ڈاکٹر ذکاء الدین شایاں۔پیلی بھیت:

"روشنی کی بشارت" حیدرقریشی کے افسانوں کا وہ مجموعہ ہے جو آج کے نئے افسانے کے ان تمام الزامات کو رد کر تا ہے جن کے تحت جدید افسانے میں بے ربط منتشر اور مبہم احساسات کو ایسی شاعرانہ زبان میں پیش کرنے کا چلن ہوگیا ہے جو ہذیان گوئی سے قریب ہے۔ ہمیں ان افسانوں میں مصنف نے اس حقیقی روشنی کی بشارت دی ہے جو ہر عہد میں انسان کو سچا راستہ دکھاتی رہی ہے او ر جو آج بھی انسان کے ضمیر کا اجالا بن کر روشن ہے۔

قیصر تمکین۔انگلینڈ:

یورپ میں مقیم اردو قلم کاروں کی فہرست میں حیدر قریشی صاحب کا نام اب کسی تعارف کا محتاج نہیں رہ گیاہے۔ویسے تو انہوں نے مختلف اصناف ادب میں اپنی محنت و ریاضت سے ممتاز جگہ حاصل کی ہے لیکن افسانے کے میدان میں ان کی مساعی واقعی بہت قابلِ لحاظ ہیں بعض بالکل ہی منفرد خصوصیات کی وجہ سے عصری کہانی کاروں میں ان کا ایک بالکل ہی علاحدہ اور ناقابلِ انکار تشخص متعین ہوچکا ہے۔

مسعود منور۔ناروے:

"آپ کی کہانیوں سے مجھے کوئی بیتی خوشبو آئی ہے۔ ٹھہریئے میں اگر جلالوں----میں اگر جلا آیا ہوں اور خوشبو میں بھیگتے ہوئے یہ سطریں لکھ رہا ہوں۔ مجھے آپ کا کہانی بننے کا ڈھنگ نویکلا لگا ہے"۔

سعید شباب۔خانپور:

کافکا کی تقلید،تجریدیت اور بے معنویت کے مختلف تجربات سے گزرنے کے بعد آج جدید افسانے نے اپنی راہیں متعین کر لی ہیں۔جو افسانوی مجموعے جدید افسانے کی آبرو اور شناخت سمجھے جا سکتے ہیں ان میں ’’روشنی کی بشارت‘‘ بے حد اہم ہے اور مجھے یقین ہے کہ حیدرقریشی کے افسانے اپنے عصر کو عبور کرنے کے بعد زیادہ با معنی اور معتبر قرار پائیں گے۔

اکرم محمود۔امریکہ:

آپ کے پانچ افسانے پڑھے ہیں۔کیا بات ہے۔بتا نہیں سکتا کہ کیسا لطف آیا۔بلا مبالغہ بار بار ایسا محسوس ہوا کہ کسی کیفیت نے میرے پورے جسم کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے۔افسانہ ختم ہونے پر بھی یہ گرفت ختم نہیں ہوئی۔

جمیل الرحمن۔انگلینڈ:

(روشن نقطہ)اپنی نوعیت کا بہت خوبصورت اور حیدر قریشی صاحب کی مخصوص چھاپ لگا افسانہ ہے۔میرے محدود علم کے مطابق اس رنگ میں ابھی تک حیدر صاحب سے اچھا افسانہ کسی نے نہیں لکھا۔تصوف اور روحانی واردات کا حسین امتزاج۔

رشید ندیم۔کینیڈا:

تصوف کے بھیدوں سے بھرا ہوا یہ افسانہ(روشن نقطہ) حیدر قریشی صاحب نے بڑی فنکاری سے لکھا ہے۔ورنہ اتنا مختصر افسانہ اس قدر معلومات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔بہت سی مبارکباد!

کامران کاظمی۔اسلام آباد:

حیدر قریشی بلا شبہ اپنے عہد کا نباض افسانہ نگار ہے۔ جو تلخ سماجی حقیقتوں کے گھونٹ پیتا ہے اور پھر اپنے قاری کو کہانی سنانے بیٹھ جاتا ہے تو اس کی دلچسپیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے ان حقائق سے بھی آگاہ کردیتا ہے جن سے قاری بے خبر ہوتا ہے۔ حیدر قریشی کا کہانی کہنے کا انداز تیکھا مگر دلنشیں ہے وہ قاری کو حیرتوں میں گم کردیتے ہیں تو ساتھ ہی اسے نئی دنیاؤں کے راستے بھی سجھاتے ہیں۔ گویا ان کا فلسفہ عمل کا فلسفہ ہے۔ اور وہ سب سے پہلے انسانوں کے درمیان مذہب کی دیوار ،سماج کی دیوار اور طبقے کی دیوار گرا کر اسے اس بے گانگی سے نجات دلانا چاہتا ہے جس نے اس کی زندگی کی شہزادی کو سامری جادوگر کے جال میں پھنسا رکھا ہے۔ حیدر قریشی تمام انسانوں کو ایک شمار کرتے ہیں اور بلاشبہ انسان دوستی کے بہت بڑے پرچارک ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Keine Kommentare:

Kommentar veröffentlichen