Sonntag, 17. Juli 2011

مسکراہٹ کا عکس

مسکراہٹ کا عکس

روشنی کا  استعارہ  کر لیا
دل نے ہر آنسو ستارہ کرلیا

ایک بہت بڑے فریم میں اباجی کی ایک بڑے سائز کی تصویر لگاکے میں نے فریم کو اپنے ڈرائنگ روم میں آویزاں کررکھاہے۔ گھر کے باقی کمروں میں بھی ان کی چھوٹی چھوٹی تصویریں سجارکھی ہیں او ریہ ساری تصویریں میرے من میں بھی سجی ہوئی ہیں۔گو انہیں فوت ہوئے ایک زمانہ ہو گیا ہے لیکن ان تصویروں کے باعث مجھے گھر میں ان کی موجودگی کا گمان رہتاہے۔ ڈرائینگ روم والی بڑی تصویر اس لحاظ سے باقی ساری تصویروں سے الگ ہے کہ اس میں اباجی کے چہرے پر ولیوں جیسی شان بے حد نمایاں ہے۔ میک اپ کرکے اپنے چہرے پر نُور ظاہر کرنے والے نام نہاد مقدس لیڈروں سے مختلف، اپنے اندر کی روشنی سے منوّر اباجی کا چہرہ۔ اور پھر اس چہرے میں دو جگمگاتی آنکھیں۔ ان جگمگاتی آنکھوں میں عجیب اسرار ہیں۔ میں کبھی کوئی بہت اچھااور نیکی کا کام کرتاہوں تو اباجی کی آنکھوں میں خوشی کی چمک دکھائی دیتی ہے۔ میں سب سے بچ بچاکر اور چھُپ چھپاکر بھی کوئی براکام کربیٹھوں تو اباجی کی آنکھوں سے برہمی بلکہ تادیب کی لَو بھڑکتی محسوس ہوتی ہے۔

کسی نے مجھ سے زیادتی کی۔۔۔ میں نے اس سے برابرکابدلہ لے لیا۔ اباجی کی آنکھوں کی اداسی جیسے بولنے لگتی ہے: اس نے تمہیں دُکھ پہنچایا، براکیا۔ تم نے فوراً بدلہ لے لیا۔ کیا مل گیابدلہ لے کر؟کبھی دکھ کو سہہ جانے کا مزہ بھی چکھ کردیکھو!
بعض بھائیوں نے میرے ساتھ ہاتھ کیا، میں نے انہیں سبق سکھاناچاہا تو اباجی کی دکھ سے بھری آنکھیں مجھے نصیحت کرنے لگیں:تم سارے بھائی میرے ہی وجود کی شناخت ہو۔وہ چھوٹے ہیں، نادان ہیں۔ انہیں نقصان پہنچاؤگے تو وہ بھی تمہارا نقصان ہوگا۔ تم جیتویاہارو، دونوں صورتوں میں خود ہی ہاروگے اور مجھے ہی ہراؤگے۔
کبھی کبھی تو ایسے لگتاہے جیسے میں ٹین ایج میں ہوں اور اباجی ہمہ وقت جا، بے جا مداخلت کرکے مجھے اپنے بنائے ہوئے سیدھے رستے پرچلائے رکھناچاہتے ہیں اور کبھی ایسا لگتاہے کہ فریم میں اباجی کی تصویر نہیں، ایک آئینہ ہے۔میں اس کے روبرو ہوتاہوں تو گویا اپنے روبرو ہوتاہوں۔مجھ پر میرے اندر سے اچھائی اور برائی کافرق منکشف ہونے لگتاہے۔ نیکی اور خیرکی تحریک ملنے لگتی ہے۔
ایک بار میں نے اپنے تینوں بیٹوں کی اباجی کے ساتھ تصویر کھینچی تھی۔ ٹیپو، اباجی کی گود میں تھااور زلفی، شازی اُن کے دائیں ،بائیں۔ مدت کے بعد اس تصویر کو دیکھا۔ میں تصویر میں موجود نہیں تھالیکن میں نے ہی تو تصویر کھینچی تھی۔ سواِس تصویر میں اپنی موجودگی، اپنی شرکت کا احساس جاگا۔ اپنے تینوں بیٹوں اور اباجی کی گروپ تصویر کو دیکھ کر میں جیسے درجۂ شہود میں داخل ہوگیا۔ مجھے محسوس ہواکہ میرے وجود میں میرے ماضی، حال اور مستقبل کے تینوں زمانے یک جاہوگئے ہیں۔ سارا زمان ایک نقطے میں ڈھل گیاہے۔ شاہد و مشہود کی تفریق ختم ہوگئی ہے۔ لیکن اگر واقعی ایسا ہے تو پھر اباجی مجھے روکتے، ٹوکتے کیوں رہتے ہیں؟۔ تب ہی نقطۂ زماں پھیلنے لگااور میں اپنے لڑکپن سے جوانی کے دور میں داخل ہونے لگا۔ہر نصیحت سے غافل اور بیگانہ۔ خواہشات کا اژدہام تھااور میں تھا۔ میں منزلوں پر منزلیں ماررہاتھا۔ خواہشات کی نوعیت بدلتی گئی، عمر ڈھلتی گئی لیکن خواہشیں جہنم کی طرح ہل من مزید پکارتی رہیں۔ بے شک انسان حریص ہے کہ اسے سونے کا پہاڑ مل جائے تواس پر خدا کا شکر ادا کرنے کی بجائے ویسے ہی ایک اور پہاڑ کی خواہش کرنے لگے گا۔ خواہش کے جہنم کا کوئی انت نہیں ہے، اس سے نکل آنے میں عافیت ہے۔ اور پھر میں اپنے گوتم کے پاس آگیا۔خواہشوں کے جہنم سے نکل آنے کے بعد اباجی سے ملاقات ہوئی۔ ان کی آنکھوں میں بیک وقت خفگی اور خوشی کاتاثر تھا:
’’خواہش پوری ہونے پر تسکین نہیں ہوتی بلکہ حرص کا روپ دھارلیتی ہے۔ جتنی خواہشیں پوری ہوتی جاتی ہیں اتناہی حرص بڑھتاجاتاہے۔ یہ پیا س اور یہ آگ کبھی بھی نہیں بجھتی۔ خواہشیں بے انت سراب کی ٹھاٹھیں مارتی لہریں ہیں!‘‘
’’اباجی!میں جوگی نہیں ہوں۔صوفی اور تیاگی نہیں ہوں۔ ان سب کی جی جان سے عزت کرتاہوں لیکن ان جیسا بننانہیں چاہتا، میں آپ جیسا ہی بننا چاہتا ہوں۔ زندگی کو بھوگتے ہوئے اپنی ریاضت، اپنی تپسّیا مکمل کرناچاہتاہوں لیکن آپ کے برعکس میری خواہشیں، حرص میں ڈھلنے لگتی ہیں اور میری ساری ریاضت برباد ہوجاتی ہے، ساری تپسیا ضائع ہوجاتی ہے۔ اور اباجی!آپ نے مجھے کبھی قناعت کادرس بھی تو نہیں دیاتھا۔شاید اسی لئے خواہشوں کو مکمل طورپرتیاگ دینا میرے لئے ممکن نہیں ہے‘‘
یہاں تک بات کرتے کرتے میری آنکھوں کاپانی پلکوں تک آگیاتھا۔ پلکوں میں اٹکے ہوئے آنسوؤں نے سارا منظردھند میں لپیٹ دیاتھا۔ لیکن یہ کیا؟
دراصل ہمارے اندر کی دنیا میں جو کچھ بھی وقوع پذیرہوتاہے وہ اند رہی اندر ہوتاہے۔ باہر کی، ظاہر کی دنیا سے یہ سب کچھ الگ تھلگ ہوتاہے۔ اپنے اندر کی دنیا میں مگن رہنے کے باوجود میں اندر اور باہر کی دنیاؤں کے اس فرق کو بخوبی سمجھتاہوں۔ اباجی کی تصویر سے میرے تعلق کی نوعیت بھی حقیقتاً داخلی تھی۔ ظاہر کی دنیا کے حساب سے توشاید ایسا کچھ بھی نہیں تھالیکن میں نے ڈبڈبائی آنکھوں سے بھی پوری طرح دیکھاتھاکہ اباجی سچ مچ تصویر کے فریم سے باہر نکلے، اور صوفے پر آکرمیرے ساتھ بیٹھ گئے۔ انہوں نے بڑی شفقت کے ساتھ اپنی پگڑی کی لڑ سے میرے آنسو صاف کئے۔ لیکن آنسو توامڈتے ہی چلے آتے تھے۔جیسے سیلاب بن کر خواہشوں کے اژدہام کو بہالے جاناچاہتے تھے۔ تب اباجی نے بیٹھے ہی بیٹھے مجھے اپنی بانہوں میں بھرکربھینچ لیا۔ شاید وہ بول نہیں سکتے تھے اور اسی طرح مجھے دلاسہ دے رہے تھے۔ پگڑی کی لڑ سے میرے آنسو صاف کئے جانے اور اباجی کا مجھے خود سے لپٹانے کا میرا تجربہ خیالی یاروحانی قطعاً نہیں تھا۔یہ مکمل طورپر جسمانی اور ظاہری وقوعہ تھا۔
میں نے آنکھوں کواچھی طرح صاف کیااور آنسوؤں کی دھندکو ہٹا کر دیکھاتو حیران رہ گیا۔ میرے تینوں بیٹے میرے پاس تھے۔ ٹیپونے مجھے بانہوں میں بھینچ رکھاتھا، شازی میرا کندھادبارہاتھاسامنے زلفی کھڑاتھااور اس کے ہاتھوں میں بھیگاہوا رومال تھا۔
’’اباجی!آپ ٹھیک تو ہیں؟آپ کو بیٹھے بیٹھے کچھ ہوگیاتھا۔کیاڈاکٹر کو بلالیں؟‘‘
پتہ نہیں تینو ں بیٹوں میں سے کون بول رہاتھا۔
مجھے ایسے لگاجیسے اباجی کے ساتھ میرے داداجی اور پرداداجی بھی میری عیادت کے لئے آئے ہوئے ہیں اور میرے پوتے اور پڑپوتے بھی میرے ارد گرد بیٹھے ہوئے ہیں۔زمان کو پھر ایک نقطے میں سمٹتے دیکھ کر مرے ہونٹوں پر مسکراہٹ سی آگئی۔ میں نے سامنے ٹنگی ہوئی اباجی کی تصویر کی طرف دیکھا تو اُن کے ہونٹوں پر بھی مجھے اپنے جیسی مسکراہٹ دکھائی دی۔ جلتی، بجھتی، چمکتی مسکراہٹ۔
پتہ نہیں اباجی کی تصویر کے ہونٹوں پر میری مسکراہٹ کاعکس تھایا میرے ہونٹوں پر اباجی کی مسکراہٹ کاعکس تھا
!
***

Keine Kommentare:

Kommentar veröffentlichen