Sonntag, 17. Juli 2011

انکل انیس


انکل انیس

باہر کے شیطان خرابی سی کر جاتے ہیں
ورنہ ہر انسان کی فطرت نوری ہوتی ہے

مسزتوصیف انور میری دورکی رشتہ دار ہیں۔ بس نام کا رشتہ ہے البتہ ان کے شوہر انور صاحب سے میرا محبت کا گہرا رشتہ ہے۔ان کی پہلی بیوی فوت ہوگئیں تو انہوں نے اپنی بہن کی مدد سے مسز توصیف سے شادی کرلی۔ تب انور صاحب ۴۵سال کے تھے اور مسز توصیف ۲۵سال کی۔ اگرچہ مسز توصیف نے شادی سے پہلے یہ بات چھپائی تھی کہ وہ طلاق یافتہ ہیں تاہم کچھ ان کی کم عمری نے اور کچھ انور صاحب کی طبعی شرافت نے اس اخفا کو مسئلہ نہیں بننے دیا۔

یہ لگ بھگ بیس برس پہلے کی بات ہے۔ انور صاحب کی پہلی بیوی سے چھوٹی بیٹی اپنی پھوپھی کے ہاں تھی۔ مجھے وہاں یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ نوسال کی بچی کو لاہور انور صاحب کے گھر پہنچا آؤں۔ ٹرین سے رات بھر کا سفر کرکے جب میں لاہور پہنچا تو انورصاحب آفس جاچکے تھے۔ سفر کی تھکن کے باعث میں نہاکر اور ناشتہ کرکے سوگیا۔ پھر پتہ نہیں کیسے میری آنکھ کھلی، لیکن جب میں جاگا تو ڈرائینگ روم سے عجیب سی آوازیں آرہی تھیں۔ انور صاحب کی بیٹی کسی مہمان کو انکل انیس کہہ رہی تھی۔ انکل انیس مُصر تھے کہ بچی باہر سے جاکر اسکنجین کے لئے لیموں خرید آئے۔ بچی بھی اپنی معصومیت میں کہہ رہی تھی ہاں انکل! میں ابھی جاکر لے آتی ہوں لیکن مسز توصیف باربار بچی کو باہر جانے سے روک رہی تھیں۔ آخر ان کی سرگوشی جیسی آواز سنائی دی:
’’انیس! بے وقوفی مت کرو۔اندر انور صاحب کاایک عزیز سویاہوا ہے‘‘
اس سرگوشی کی آواز سن کر میں جان بوجھ کر سویاہوا بنارہاحالانکہ میرا پورا وجود جاگ گیاتھا۔
میں جنس کو زندگی کی ایک حقیقت سمجھتاہوں۔معاشرتی حدود میں رہ کر اس کے تقاضے پورے ہوں تو زیادہ بہتر ہے۔ لیکن اگر کوئی ان سماجی حدود کو باہمی رضامندی اور خاموشی سے پھلانگتاہے تو میں اس پر بھی خاموش رہنے کو ترجیح دیتاہوں۔ ہر کسی کی اپنی زندگی ہے۔کوئی جیسے چاہے بسر کرے۔ میں دو دن لاہور رہا۔اس دوران انکل انیس سے دو ملاقاتیں ہوئیں۔ میں نے مسز توصیف یا انکل انیس کو ہوا بھی نہیں لگنے دی کہ مجھے ان کے ناجائز مراسم کا علم ہوگیاہے۔ بعد میں جب کبھی کبھار لاہور جانا ہوتا، انور صاحب کے گھر پر انکل انیس سے بھی ایک آدھ ملاقات ہوجاتی۔ لیکن چند برسوں کے بعد مجھے یہ حیران کن خبر معلوم ہوئی کہ انور صاحب کے ایک اسکول کی ہیڈ مسٹریس سے دوستانہ مراسم تھے۔ انور صاحب کے گھر پراس دن کوئی نہیں تھا چنانچہ انور صاحب اور وہ ہیڈ مسٹریس تنہائی کی موج میں دوستانہ مراسم سے آگے، کافی آگے تک چلے گئے۔ انور صاحب زندگی میں پہلی بار گناہ کی لذت سے آشنا ہوئے تھے جبکہ مسز توصیف اس میدان کی تجربہ کار کھلاڑی تھیں۔ انہوں نے ایک ہی جھٹکے میں انور صاحب سے سچ اگلوالیا اور پھر قرآن اٹھوایاکہ آئندہ ایسا نہیں کریں گے۔ انور صاحب جو پہلے ہی عمروں کے نمایاں فرق کے باعث بیوی کے دباؤ میں تھے مزیددباؤ میں آگئے۔ جب مجھے اس بات کاعلم ہوا، مجھے شدید دکھ ہوا۔انور صاحب کا گناہ بے شک گناہ تھا۔ لیکن ان سے قرآن اٹھوانے والی مسز توصیف کو اس کا کیا حق پہنچتا تھا؟۔ چھاج تو بولے پر چھلنی کیوں بولے۔
ہماری دنیا، سارے معاشرے، سارے فرقے، سب کے نزدیک مجرم وہی ہے جو پکڑاجائے۔جو مہارت کے ساتھ جی بھر کر گناہ کرے، جرائم کامرتکب ہو لیکن پکڑانہ جائے وہ متقی، پرہیزگار اور مومن ہے۔ بارہایہ خیال آئے کہ انور صاحب کو جاکر ان کی بیگم کے کرتوت بتادوں، پھر سوچتاچلو انور صاحب پر ایک قیامت توگزر چکی اب انہیں ایک اور قیامت سے کیوں دوچار کروں۔ جیسی بھی سہی ان کی زندگی گزر تو رہی ہے، گھر بسا تو ہوا ہے۔ آخر میں نے راز افشا کرنے کی بجائے پردہ پوشی کرنے کو ترجیح دی۔ایک عرصہ گزرجانے کے بعد آج مجھے یہ ساری باتیں پھرسے یاد آگئی ہیں۔
دراصل ہوایہ تھاکہ میں ہوٹل میں لنچ کرنے گیاتھا۔وہاں اچانک انکل انیس دو معزز بیگمات شمیم خانم اور رضیہ بیگم کے ساتھ آن ٹپکے۔رسماً یا مروتاًہی نہیں میں نے انکل انیس کو دلی طورپر اپنے ساتھ لنچ کی دعوت دی جو بخوشی قبول کرلی گئی۔ دوران گفتگو پتہ چلا کہ لبرل سوچ رکھنے والے دوستوں نے مل کر خواتین کے حقوق کے سلسلے میں ایک نئی تنظیم قائم کی ہے۔ اس تنظیم کی نئی شاخیں کھولنے کے لئے اور کارکردگی بڑھانے کے لئے مختلف شہروں کا دورہ کیاجارہاہے۔ میرے ساتھ ان کی ملاقات اتفاقیہ تھی اور اسے کھانے کی میز پر ہلکی پھلکی گپ شپ تک ہی محدود رہنا چاہئے تھالیکن تنظیم سازی کے جوش میں میرے سامنے بھی انہوں نے خواتین کے حقوق کے مسئلہ پر رٹی رٹائی جوشیلی باتیں شروع کردیں۔ میں خواتین کے حقوق کا مخالف نہیں ہوں۔ خواتین کو معاشرے میں ان کاجائز مقام ملنا چاہئے۔ صدیوں سے روارکھی جانے والی ناانصافی کا خاتمہ ہونا چاہئے لیکن انکل انیس کے منہ سے خواتین کے حقوق کی باتیں مجھے اچھی نہیں لگ رہی تھیں۔ ایک مرحلے پر میں نے ان سے پوچھا’’اس انقلابی مہم میں مسز توصیف نے آپ کا ساتھ نہیں دیا؟‘‘
’’ارے وہ تو نری مولوانی ہے۔ اسے ایسے انقلابی محاذپر آنے کی ہمت ہی نہیں‘‘
انکل انیس کاجواب سن کر جی چاہا کہہ دوں’’انکل !وہ مولوانی ہرگز نہیں ہیں۔انہوں نے نماز اور تسبیح کی آڑلے کر آپ کے ساتھ ناجائز مراسم قائم کرنے کی ہمت کرلی تھی تو اس کارخیر میں آگے آنے کی ہمت کیوں نہیں کرسکتیں۔‘‘ لیکن میں یہ بات نہ کہہ سکا۔ اس کی بجائے میں نے انہیں بتایاکہ ’’جن عورتوں پر ظلم ہوتے ہیں وہ زیادہ تر دیہاتوں میں رہتی ہیں، شہروں کے تنگ و تاریک محلّوں میں رہتی ہیں۔ ا س لئے اگر آپ واقعی خواتین کے حقوق کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اپنی تنظیم کی بیگمات کو کام کرنے کے لئے دیہاتوں میں بھیجئے، شہروں کے پرانے اور تنگ و تاریک محلوں میں بھیجئے۔ سیٹلائٹ ٹاؤن اور اس طرح کی نئی آبادیوں میں مقیم خواتین بڑی حد تک اپنے حقوق سے آگاہ ہیں‘‘۔
تب انکل انیس کی بجائے شمیم خانم نے مجھے ٹوکااور بتایاکہ ’’ماڈرن علاقے کی خواتین کے حقوق بھی پامال ہورہے ہیں۔ ہم نے اپنا کام ابھی شروع کیاہے۔ آہستہ آہستہ ہم پسماندہ محلوں اور دیہاتوں کی طرف بھی جائیں گے۔ ہمیں اس غیر متوازن معاشرے کو متوازن بناناہے‘‘
’’آپ کے خیال میں یہ متوازن معاشرہ کیسے وجود میں آئے گا؟‘‘
’’جب مرد اور عورت کی تفریق کے بغیر صرف انسان کی بات کی جائے گی‘‘
’’اگر یہ بات ہے تو پھر انسان کے زمرہ میں صرف مرد اور عورت کو ہی نہیں سمجھیں۔ مخنّثوں کو بھی اس میں شامل کریں۔ انسانی برادری میں سب سے زیادہ تضحیک، ظلم اور استحصال کا شکار تو پھر مخنث طبقہ ہے۔‘‘
’’یہ طبقہ بھی مردانہ چیرہ دستی کا شکار ہے‘‘اس بار رضیہ بیگم بولیں۔
’’توپھر آپ لوگ اپنی جدوجہد انکل انیس کے بغیر شروع کریں‘‘میری بات سن کر انکل انیس نے قہقہہ لگایالیکن ان کے چہرے سے خفّت عیاں تھی۔
’’نہیں۔ ابھی ہماری جدوجہد ابتدائی مرحلے میں ہے اس لئے ہمیں ابھی صرف خواتین کے حقوق کے لئے کام کرناہے اور اس کارِ خیر میں جو مرد حضرات ہمارا ساتھ دیں گے ہم انہیں خوش آمدید کہیں گے‘‘شمیم خانم نے بڑے سلیقے سے جواب دیا۔
’’مرد ساری زندگی عیاشی کرتارہے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔عورت سے زندگی میں ایک بار بھول ہوجائے تو اس کی ساری زندگی اجیرن کردی جاتی ہے‘‘ رضیہ بیگم کے لہجے میں تلخی تھی، انہوں نے جیسے بات کا رخ موڑنے کی کوشش کی۔ میں بھی اسی سمت مڑگیا:
’’تو کیا اس جدوجہد کایہ مقصد ہے کہ چونکہ مرد عیاشی کرتے ہیں اس لئے عورتوں کو بھی عیاشی کرنے کا حق ملناچاہئے‘‘
’’دیکھیں!اب آپ شدید زیادتی پر اُتر آئے ہیں‘‘انکل انیس کے لہجے میں احتجاج تھا۔
’’آپ مجھے یہ بتائیں کہ جس طرح مرد اپنی کسی رشتہ دار عورت کو قابلِ اعتراض حالت میں دیکھ کر غیرت کے نام پر قتل کردیتاہے۔ عورت کو بھی آپ ایسی ہی غیرت کا مظاہرہ کرنے کا حق دیں گے جب ا سکا کوئی قریبی رشتہ دار ویسی ہی قابل اعتراض حالت میں پایاجائے؟‘‘ رضیہ بیگم کی بات میں خاصاوزن تھالیکن میرا اندر کا مسئلہ تو انکل انیس کو زچ کرنے کا تھااس لئے میں نے پینترابدل کر بات سنبھالنی چاہی،
’’میں تمام معزز خواتین سے معافی چاہتاہوں لیکن مجھے بتائیں کہ خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے کی دعوے دار خواتین میں کتنی ہیں جو عاصمہ جہانگیر کی طرح ٹھوس اور عملی کام کررہی ہیں اور کتنی ہیں جو سیمیناروں اور دَوروں کے ذریعے اپنے شوہروں کے بغیر دوسرے مردوں کے ساتھ پتہ نہیں کہاں کہاں کی سیاحت فرمارہی ہیں‘‘
’’یہ تو آپ براہ راست ہماری توہین کررہے ہیں‘‘دونوں بیگمات ایک ساتھ بولیں۔
’’خواتین کے حقوق کی چیمپئن ایک عورت کو میں ذاتی طورپرجانتا ہوں۔ اس نے اپنے جسم کو زینہ بنایااور ترقی کی منزلیں طے کرتی گئی۔ جب عمر ڈھل گئی تو اعلیٰ افسران کو لڑکیاں سپلائی کرنے لگی۔ بڑی معروف عورت ہے۔ عورتوں کے حقوق کے لئے سب کچھ کر گزرتی ہے‘‘
’’میرا خیال ہے کہ اب ہمیں یہاں مزید بیٹھنا نہیں چاہئے‘‘انکل انیس یہ کہہ کر غصے کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے۔ دونوں بیگمات بھی جلالی شان کے ساتھ اٹھ گئیں۔
’’انکل انیس !یہ سیدھی سادی بحث تھی لیکن آپ ناراض ہوہی گئے ہیں تو جاتے جاتے یہ کڑوا سچ بھی سن لیجئے کہ خواتین کے لئے اتنے حقوق مانگیے جتنے آپ اپنی ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کو دے سکیں۔ کیا آپ اپنی ماں،بہن، بیوی یا بیٹی کو یہ حق دیں گے کہ وہ کسی اور انیس صاحب کے ساتھ اسی طرح دورے کریں‘‘۔
میری بات مکمل ہوچکی تھی۔ انکل انیس دونوں معزز خواتین کے ساتھ ہوٹل سے باہر جاچکے تھے۔
بیرا چار کھانوں کاجوبل لایاتھاخاصابھاری تھا لیکن بل اداکرتے وقت میں خود کو بے حد ہلکا پھلکا محسوس کررہاتھا۔مجھے ایسے لگ رہاتھاجیسے میں نے مسز توصیف سے اس زیادتی کا تھوڑاسا بدلہ لے لیاہے جو انہوں نے انور صاحب کے ساتھ کی تھی۔

***

Keine Kommentare:

Kommentar veröffentlichen