Sonntag, 17. Juli 2011

چند تاثرات

چند تاثرات

        میرے افسانوں کے بارے میں مختلف ادبی احباب نے مضامین،تبصروں اور خطوط کے ذریعے جو رائے پیش کی،اس کا ایک مختصر سا انتخاب ذیل میں پیش کر رہا ہوں۔       ح۔ق


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر وزیر آغا۔لاہور:

"پتھر ہوتے وجود کا دکھ"بہت عمدہ افسانہ ہے۔ اگر آپ اسی رفتار اور انداز سے آگے بڑھتے رہے تو بہت جلد صف اول کے افسانہ نگاروں میں شمار ہونے لگیں گے"۔

پروفیسرجیلانی کامران۔لاہور:

حیدرقریشی نے ان افسانوں کے ذریعے کہانی کے کینوس کو وسیع کرتے ہوئے نئے امکانات کی طرف اشارا کیا ہے اور اس سچائی کو نمایاں کیا ہے کہ لمِٹ سچوایشن کے دوران انسان صرف کرب ہی کی نمائندگی نہیں کرتا اور نہ اس کا وجود ہی پاش پاش ہوتا ہے بلکہ اس کے نطق سے اس کی اپنی تاریخ گفتگو کرتی ہے۔ ہمارا افسانہ تاریخ کے اس مکالمے سے شاید اب تک غافل تھا۔ حیدرقریشی نے اپنے افسانوں کی راہ سے تاریخ کے اس مکالمے کو سننے کی سعی کی ہے۔

جوگندر پال۔دہلی:

حیدر قریشی اسی وسیع تر زندگی کی دریافت کے لئے اپنی کہانیاں تخلیقتا ہے۔ اپنے اس کھلے کھلے راستے کو طے کر کے اسے دوریا نزدیک کسی شیشے کے محل میں اقامت نہیں اختیار کرنا ہے، بلکہ راستوں سے راستوں تک پہنچنا ہے اور ہر راستے پر تباہ حال زندگی کی باز آباد کاری کئے جانے ہے۔ وہ لکھ لکھ کر گویا کچھ بیان نہیں کر رہا ہوتا ، بلکہ اپنے لکھے ہوئے کو کر رہا ہوتا ہے اور اسے ایسا کرتے ہوئے پا کر بے لوث انسانی رشتوں پر باور کر لینا غیر مناسب معلوم نہیں ہوتا ۔

ڈاکٹر رشید امجد۔اسلام آباد:

حیدر قریشی کے افسانوں کا اختصار ، جملہ کی گرفت، ہر جملے کا دوسرے جملے سے ایسے جڑا ہونا جیسے زنجیر کی کڑیاں ہوں،مترنم لفظوں کا انتخاب اور کہانی کی مجموعی بُنت میں ماورائی تخلیقی ذہن ، ان کی شاعر ذات کی دین ہے۔ حیدر قریشی کے دونوں افسانوی مجموعے ان کے فنکارانہ سفر کے دو مرحلے ہیں ان میں ایک فنی اور فکری ارتقاء ہے جو ان کی اگلی منزل کی نشاندہی کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اردو افسانے کے مجموعی سفر میں بھی یہ دونوں مجموعے اپنی اہمیت اور پہچان رکھتے ہیں۔

دیوندراِسر۔دہلی:

حیدر قریشی کی کہانیاں ایک نئی تخلیقی روایت کی شروعات ہیں جو واقعاتی تسلسل اور کہانی پن پر مبنی ہو کر سوال، شک اور فکر کی بنیاد پر کہانی کا شفاف شیشا گھر تعمیر کرتی ہیں۔ اس شیشا گھر میں ہم داخل ہونے کے لئے آزاد ہیں لیکن اس سے باہر نکلنے کے رستے بند ہیں، صرف ایک چھوٹا سا روشن دان کھلا ہے، ہمارے دل کا ---جس میں نہ جانے کہاں سے روشنی کی کرن چھٹک کر آرہی ہے جس کے ساتھ ساتھ چل کر ہم وقت کے اس نقطہ پر پہنچتے ہیں جہاں سچ ہمارا منتظر ہے۔
جہاں سچ سے ہم معانقہ کرتے ہیں!

ڈاکٹر قمر رئیس۔دہلی:

"کہانیاں علامتی ہیں لیکن معاصرجدید کہانیوں سے الگ اور انوکھی۔ یہاں تاریخ کنگناتی ہے۔ انسانی تہذیب سرگوشیاں کرتی ہے اور ان کی کوکھ سے آج کے جلتے ہوئے مسائل پھنکار مارتے نکلتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ پرکشش کہانیاں جو سوچنے پر اکساتی ہیں"۔

ڈاکٹر انور سدید۔لاہور:

"حیدرقریشی بظاہر ادب کی کئی اضاف میں ایک طویل عرصے سے بڑی پختہ کاری سے تخلیقی کام کر رہے ہیں تاہم ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ افسانے کے دیار میں قدم رکھتے ہیں تو فطرت اپنے اسرار کی گتھیاں ان پر بانداز دگر کھولتی ہے۔ "روشنی کی بشارت"ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ہے لیکن وہ نئے افسانہ نگار نہیں۔ ان کا شمار ساتویں دہے کے ان افسانہ نگاروں میں کرتا مناسب ہوگا جو تجریدیت سے معنی کا نیا مدار طلوع کرتے اور سوچ کو نئی کروٹ دیتے ہیں۔
"روشنی کی بشارت" کے افسانوں میں حیدرقریشی کرنوں کے تعاقب میں سرگرداں نظر آتا ہے لیکن جب اسے سدھارتھ کا معصوم چہرہ نظر آجاتا ہے تو اسے اطمینان ہو جاتا ہے کہ اس کل جگ میں زندہ رہنے کا جواز موجود ہے۔ ترقی پسند افسانہ نگاروں نے اپنے نظریاتی انسان کو کلیت کے دائرے میں محصور کر دیا تھا۔ حیدرقریشی نے اس دائرے کو توڑ کر اس منفرد انسان کو پیش کیا ہے جو اپنے خالق کا نائب ہے اور جس کا وجود پوری دنیا میں ہر جگہ موجود ہے۔ "دھند کا سفر" "حوا کی تلاش" "گلاب شہزادے کی کہانی" "مامتا" "اپنی تجرید کے کشف کا عذاب" جیسے افسانوں میں حیدر قریشی نے اندھیرے سے روشنی کی جہت میں سفر کیا ہے۔ بے اطمینانی سے اطمینان کی دولت تلاش کی ہے۔ خود غرض انسان کا سامنا کرتے کرتے جب اس نے بے لوث اور بے ریا انسان سے ملاقات کر لی تو اس کا دل شانت ہوگیا۔ "روشنی کی بشارت"کے افسانے ایک ایسے فنکار کی تخلیقات ہیں جس نے روح اور مادے کو متصادم دیکھا اور عرفان کی منزل خود تلاش کی"۔

ڈاکٹر ڈیرک لٹل ووڈ۔برمنگھم یونیورسٹی:


Haider Qureshi146s splendid collection of short stories extends the range of contemporary Urdu writing available in English translation. Qureshi is a philosophical story teller who ranges from the Ramayana to ecological fables and reflections on the experience of immigrant workers in Germany.His is a singular voice which deserves a wider audience. These stories are thoughtful and full of interest.
Dr. Derek Littlewood (Birmingham, ENGLAND.)

عبداللہ جاوید۔کینیڈا:
’عمر لا حاصل کا حاصل ‘میں درج شدہ سارے افسانے پڑھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ انہوں نے اردو افسانے کی مروجہ حدوں کو پار کرنے کی ہمت جٹائی ہے ۔ اس سے قبل ہمت، جسارت اور بغاوت کے القاب ان افسانہ نگاروں کے لیے استعمال کیے جاتے رہے ہیں جو روایتی موضوعِ ممنوعہ یعنی جنس کو اپناتے تھے۔ جنس کے بعد سیاسی اور مزاحمتی موضوعات کا معاملہ آتا ہے۔ حیدر قریشی ان موضوعات کے دلدادہ نکلے جو مجذوبوں کو ساجتے ہیں۔ وہ ایسے سوالات کے جوابات کے متلاشی معلوم ہوتے ہیں جو قریب قریب لا جواب ٹھہرائے جاتے رہے ہیں۔ یہ بڑا کام ہے اور شاید اسی سبب سے ان کے مختصر لیکن ’بڑے افسانے‘ قاری کا تعاقب کرتے رہتے ہیں۔ آخری سطر پڑھنے پر بھی جان نہیں چھوڑتے سوچنے پر مائل اور دہرانے پر مجبور کرتے ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ حیدر قریشی کا افسانہ پڑھنا ایسا ہی ہے جیسے ذاتی زندگی کے کسی تجربے سے گزرنا ۔ا یسے تجربے سے جو سوچ ، کشف اور بشارت سے عبارت ہے۔

 
ڈاکٹر فہیم اعظمی۔کراچی:
"حیدر قریشی الہامی قصص ، اساطیر ، ذاتی اور معاشرتی مسائل کو آپس میں مدغم کر کے ایک ایسا آئینہ تخلیق کرتے ہیں جس میں پیدائش سے موت تک زندگی کا عکس نظر آتا ہے۔ بیشتر کہانیوں میں میجر کردار خود کہانی کار کی ذات ہوتی ہے اور اس طرح حیدرقریشی فلسفیانہ ،مذہبی اور اخلاقی قدروں پر رائے بھی دیتے ہیں تو کسی غیر متعلق یا خارجی خیال آرائی کا احساس نہیں ہوتا اور سب کچھ کہانی کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔
حیدرقریشی کی کہانیاں زمینی زندگی کے معمولی واقعات سے شروع ہوتی ہیں جنہیں فلو بیر کے لفظوں میں SLICES OF LIFEکہا جا سکتا ہے مگر ان میں جلد ہی مذہبی، عقیدتی اور رحانی رنگ بکھرنے لگتا ہے اور ان کی اٹھان عمودی ہوجاتی ہے۔ پھر ان کہانیوں کی فضا زمین اور آسمان کے بہت بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ اکثر کہانیوں کا اسلوب داستانی معلوم ہوتا ہے لیکن لہجہ کا دھیما پن، علامتوں ، تمثیلوں اور تلازمے کا استعمال انہیں داستانی رنگ سے الگ بھی کرتا ہے۔کہیں کہیں مذہبی عقائد کا اظہار بھی ہوتا ہے مگر جمالیاتی طور پر ان میں نہ کوئی خطابیت پیدا ہوتی ہے اور نہ کسی آئیڈیل یا انفرنل دنیا میں داخل ہونے کی ترغیب ہوتی ہے۔ حیدر قریشی کی کہانیوں میں زبان اور حوالہ جات اس وقت، زمانے اور علاقے کی حدوں کا تاثر ضرور دیتے ہیں جب اور جہاں ان کی کہانیوں نے جنم لیا کیونکہ اس سے کسی تخلیق کار کو مفر نہیں، لیکن ان کہانیوں کا مجموعی سپکڑم زمان اور مکاں کی قید سے آزاد ہوتا ہے اور دنیا کے کسی بھی حصے کا قاری ان کہانیوں میں امکانی سچائی دیکھ سکتا ہے"۔

پروفیسرڈاکٹر حمید سہروردی۔گلبرگہ:

"حیدرقریشی کے افسانے پر یم چند اور یلدرم کے اسلوب و مزاج کی آمیزش اور آویزش سے اپنا ایک نیا افسانوں مزاج اور ڈکشن تیار کرتے ہیں۔ ان کا تجربہ ہم سب کا تجربہ بن جاتا ہے۔ ان کی بصیرت تیز اور روشن ہے اور وہ افسانے کی میڈیم سے روزمرہ زندگی کے انگنت تجربوں کو کچھ اس طرح سے گرفت کرتے ہیں کہ زبان و قلب سے بے ساختہ حیرت اورا ستعجاب کے کلمات ادا ہوتے ہیں۔ حیدر قریشی اپنے رنگ و مزاج کو اپنے ہر افسانے میں افسانوی زبان کے تخلیقی و اکتسابی امتزاج کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ ان کی خوبی نہ صرف ڈکشن میں ہے بلکہ موضوعات کے برتاؤ میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔
میں ذاتی طور پر حیدرقریشی کو جدید تر افسانوی میدان میں کامیاب و کامران سمجھتا ہوں۔ ان کا یہی انداز توازن و تناسب کے ساتھ برتا جائے تو وہ اپنی انفرادیت برقرار رکھیں گے اور وہ حضرات جو جدید اور جدید تر افسانے کے باب میں شاکی ہیں اطمینان حاصل کرلیں گے"۔

ڈاکٹر ذکاء الدین شایاں۔پیلی بھیت:

"روشنی کی بشارت" حیدرقریشی کے افسانوں کا وہ مجموعہ ہے جو آج کے نئے افسانے کے ان تمام الزامات کو رد کر تا ہے جن کے تحت جدید افسانے میں بے ربط منتشر اور مبہم احساسات کو ایسی شاعرانہ زبان میں پیش کرنے کا چلن ہوگیا ہے جو ہذیان گوئی سے قریب ہے۔ ہمیں ان افسانوں میں مصنف نے اس حقیقی روشنی کی بشارت دی ہے جو ہر عہد میں انسان کو سچا راستہ دکھاتی رہی ہے او ر جو آج بھی انسان کے ضمیر کا اجالا بن کر روشن ہے۔

قیصر تمکین۔انگلینڈ:

یورپ میں مقیم اردو قلم کاروں کی فہرست میں حیدر قریشی صاحب کا نام اب کسی تعارف کا محتاج نہیں رہ گیاہے۔ویسے تو انہوں نے مختلف اصناف ادب میں اپنی محنت و ریاضت سے ممتاز جگہ حاصل کی ہے لیکن افسانے کے میدان میں ان کی مساعی واقعی بہت قابلِ لحاظ ہیں بعض بالکل ہی منفرد خصوصیات کی وجہ سے عصری کہانی کاروں میں ان کا ایک بالکل ہی علاحدہ اور ناقابلِ انکار تشخص متعین ہوچکا ہے۔

مسعود منور۔ناروے:

"آپ کی کہانیوں سے مجھے کوئی بیتی خوشبو آئی ہے۔ ٹھہریئے میں اگر جلالوں----میں اگر جلا آیا ہوں اور خوشبو میں بھیگتے ہوئے یہ سطریں لکھ رہا ہوں۔ مجھے آپ کا کہانی بننے کا ڈھنگ نویکلا لگا ہے"۔

سعید شباب۔خانپور:

کافکا کی تقلید،تجریدیت اور بے معنویت کے مختلف تجربات سے گزرنے کے بعد آج جدید افسانے نے اپنی راہیں متعین کر لی ہیں۔جو افسانوی مجموعے جدید افسانے کی آبرو اور شناخت سمجھے جا سکتے ہیں ان میں ’’روشنی کی بشارت‘‘ بے حد اہم ہے اور مجھے یقین ہے کہ حیدرقریشی کے افسانے اپنے عصر کو عبور کرنے کے بعد زیادہ با معنی اور معتبر قرار پائیں گے۔

اکرم محمود۔امریکہ:

آپ کے پانچ افسانے پڑھے ہیں۔کیا بات ہے۔بتا نہیں سکتا کہ کیسا لطف آیا۔بلا مبالغہ بار بار ایسا محسوس ہوا کہ کسی کیفیت نے میرے پورے جسم کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے۔افسانہ ختم ہونے پر بھی یہ گرفت ختم نہیں ہوئی۔

جمیل الرحمن۔انگلینڈ:

(روشن نقطہ)اپنی نوعیت کا بہت خوبصورت اور حیدر قریشی صاحب کی مخصوص چھاپ لگا افسانہ ہے۔میرے محدود علم کے مطابق اس رنگ میں ابھی تک حیدر صاحب سے اچھا افسانہ کسی نے نہیں لکھا۔تصوف اور روحانی واردات کا حسین امتزاج۔

رشید ندیم۔کینیڈا:

تصوف کے بھیدوں سے بھرا ہوا یہ افسانہ(روشن نقطہ) حیدر قریشی صاحب نے بڑی فنکاری سے لکھا ہے۔ورنہ اتنا مختصر افسانہ اس قدر معلومات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔بہت سی مبارکباد!

کامران کاظمی۔اسلام آباد:

حیدر قریشی بلا شبہ اپنے عہد کا نباض افسانہ نگار ہے۔ جو تلخ سماجی حقیقتوں کے گھونٹ پیتا ہے اور پھر اپنے قاری کو کہانی سنانے بیٹھ جاتا ہے تو اس کی دلچسپیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے ان حقائق سے بھی آگاہ کردیتا ہے جن سے قاری بے خبر ہوتا ہے۔ حیدر قریشی کا کہانی کہنے کا انداز تیکھا مگر دلنشیں ہے وہ قاری کو حیرتوں میں گم کردیتے ہیں تو ساتھ ہی اسے نئی دنیاؤں کے راستے بھی سجھاتے ہیں۔ گویا ان کا فلسفہ عمل کا فلسفہ ہے۔ اور وہ سب سے پہلے انسانوں کے درمیان مذہب کی دیوار ،سماج کی دیوار اور طبقے کی دیوار گرا کر اسے اس بے گانگی سے نجات دلانا چاہتا ہے جس نے اس کی زندگی کی شہزادی کو سامری جادوگر کے جال میں پھنسا رکھا ہے۔ حیدر قریشی تمام انسانوں کو ایک شمار کرتے ہیں اور بلاشبہ انسان دوستی کے بہت بڑے پرچارک ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

افسانوں کے دو مجموعوں کے انتساب

 
اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے
 
روشنی کی بشارت

بے حد عجز و انکسار

تعظیم و تکریم اور
محبتوں کے ساتھ
کائنات کے سب سے قدیم اور سب سے عظیم تخلیق کار
اپنے پیارے خدا کے نام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پس کہانیاں کہتے رہو کہ لوگ کچھ تو سوچ بچار کریں
 
قصے کہانیاں

اپنے پردادا حضور

میاں میر محمد قریشی گڑھی اختیار خاں والے
اور اپنے دادا جی
میاں اﷲ رکھا قریشی کے نام
 
 
 

میں انتظار کرتا ہوں



میں انتظار کرتا ہوں

خزاں رسیدہ سہی پھر بھی میں اگر چاہوں

  جہاں  نگاہ   کروں    اک  نئی   بہار  اُگے


میں سوتیلے جذبوں کے عذابوں سے گزرتاہوں کہ مجھے اپنا سفر مکمل کرنا ہے۔

میں کسی صحرا میں پیاس کی شدّت سے ایڑیاں رگڑ رہاہوں۔
اور مامتا کی ماری میری ماں پانی کی تلاش میں ہلکان ہوتی پھر رہی ہے۔
میں کسی اندھے کنوئیں میں گراپڑا ہوں۔
اور میرے بھائی ان سوداگروں سے بھی میری قیمت وصول کررہے ہیں جو کچھ دیر بعد مجھے اس کنوئیں سے نکالیں گے اور غلام بناکرلے جائیں گے۔
میں کسی جنگل میں بَن باس کے دن گزار رہاہوں۔
مری بیوی مجھے ہرن کاشکار لانے کے لیے کہتی ہے۔ میں ہچکچاتا ہوں مجھے معلوم ہے اس کے بعد کیا ہوگا مگر پھر میں بیوی کی خواہش پوری کرنے کے لیے نکل کھڑا ہوتا ہوں۔

**
میں کہ سوتیلے جذبوں کاشکار ہوں۔
میری تاریخ کے سفر کا ایک حصہ مکمل ہوگیاہے ’’لچھمن ریکھا‘‘ عبور ہوتے ہی تاریخ کے سفر کا دوسرا حصہ شروع ہوگیاہے۔ میں کسی غیبی امداد کا منتظر ہوں۔
میں اندھے کنوئیں سے نکال لیاگیاہوں۔
مگر میں ابھی تک اندھے کنوئیں میں ہوں کہ زلیخامیرے تعاقب میں ہے اور میں گناہ کے اندھے کنوئیں سے نکلنے کے لئے مسلسل دوڑ رہاہوں۔
پیاس کی شدت میں مزید اضافہ ہوگیاہے۔
اور میری ماں جو دوڑتے دوڑتے تھک کر چُور ہوگئی ہے۔ ابھی تک پانی کی تلاش میں سرگرداں ہے اس کے اپنے ہونٹوں پر پیاس کی پپڑیاں جم گئی ہیں۔ مگر دور دور تک کسی قافلے کے آثار نظر نہیں آتے۔
میری بے گناہی۔۔ میری نیکیاں دنیا نہیں دیکھتی اور میں تہمتوں کی زد میں ہوں۔
میں اذیت میں ہوں کہ میری ماں ابھی تک میری خاطر پانی کی تلاش میں سرگرداں ہے۔
وہ جو بادشاہ زادی ہے۔ میرے سوتیلے بھائی اسے لونڈی اور مجھے لونڈی کا بیٹا کہتے ہیں۔
میں دکھ میں ہوں کہ حاکم کی بدکاربیوی مجھے میری نیکی کی کڑی سزا دلواتی ہے۔
میں قید میں ہوں کہ بدکاری کی تہمت مجھ پر عائد کردی گئی ہے۔
اور میراسینہ تنگ ہوتاہے کہ میری پاک دامن بیوی پر بدکاری کا الزام عائد کیاگیاہے۔
یہ سارے جھوٹے الزام اور تہمتیں وہی لگارہے ہیں جو خود بدکار ہیں۔ جو میرے سوتیلے عزیز ہیں۔ وہ میرے گردسوتیلے جذبوں سے جھوٹے الزامات اور تہمتوں کا ایندھن جمع کررہے ہیں تاکہ اس میں نفرتوں کی آگ لگاکر مجھے بھسم کرڈالیں۔
میں اس آگ سے بچنے کے لئے دعاکرتاہوں کہ میں بے حد کمزور ہوں۔

**
میں وہی ہوں کنواریاں جس کے لیے ہزاروں برس سے انتظار کررہی تھیں۔
اور میں وہی ہوں.....چاند، سورج اور ستارے جس کے آگے سجدہ ریز ہوں گے۔
اور میں وہی ہوں جو اپنے باپ کے تخت کاحقیقی وارث ہے۔
مگر میں سوتیلے جذبوں کا شکار ہوں۔
میں سوچتا ہوں۔
میں کن امتحانوں آزمائشوں اور ابتلاؤں سے گزررہاہوں؟
میری پاکدامن بیوی کی صفائی کون دے کہ میرا واسطہ بدکاروں سے ہے جو اپنی برائیاں چھپانے کے لئے دوسروں پر تہمتیں عائد کرتے ہیں۔
اور میری اپنی صفائی کون دے کہ میں اب بھی گناہ پر آمادہ ہوجاؤں تو وہی عورت میری بے گناہی کی گواہی دے کر مجھے چھڑالے جائے گی جس نے مجھے اس حال تک پہنچایاہے۔
اورمیری ماں....بادشاہ زادی.... جو میری حالت نہیں دیکھ سکتی اور اس کی بے قراری دیکھ کر میرا اپنا دِل خون ہوتاہے اور میں پہلے سے زیادہ زور کے ساتھ ایڑیاں رگڑنے لگتا ہوں، وہ کب تک پانی کی تلاش میں پہاڑیوں کا سفر کرتی رہے گی۔

**
سوتیلے جذبوں سے جھوٹے الزامات اور تہمتوں کا ایندھن میرے چاروں طرف جمع کیاجاچکاہے اس ایندھن کے انبار پہاڑوں کی بلندیوں تک پہنچتے ہیں۔
وہ صحرا جس میں،میں ابھی تک پیاس کی شدت سے ایڑیاں رگڑ رہا ہوں اور میری ماں پانی کی تلاش میں چکراتی پھر رہی ہے،
اور وہ اندھا کنواں جس میں مجھے ڈالاگیاتھا اور وہ جیل جس میں ،میں اس وقت قید ہوں،
اور وہ جنگل جس میں مجھے اپنے بن باس کے سارے دن گزارنے ہیں،سب اس ایندھن کے حصار میں آگئے ہیں۔ ایندھن کے اس حصار کی دوسری طرف میرے سوتیلے عزیز جشن منارہے ہیں، میری تضحیک کررہے ہیں، قہقہے برسارہے ہیں۔ اور وہ لمحہ قریب آتاجارہا ہے جب وہ اس ایندھن میں نفرت کی آگ لگائیں گے۔آگ چاروں طرف پھیل جائے گی۔ تب یہ صحرا، یہ اندھا کنواں، یہ جنگل اور میں ... میری بے گناہی اور سچائی کے سارے نشان اس آگ میں جل کر فناہوجائیں گے۔ مٹ جائیں گے۔ اور میرے سوتیلے عزیزوں کے سوتیلے جذبوں کے ظلم کا کوئی ثبوت باقی نہیں رہے گا۔ تب میرے سوتیلے عزیزاپنی مرضی کے مطابق میری تاریخ لکھیں گے، تب وہ اطمینان سے لکھیں گے کہ:
میں بدکارتھااور میری بیوی بھی بدکار تھی اور میری ماں لونڈی تھی... مگر میرا باپ؟

**
میں پھر سوچنے لگتاہوں
میں جو صحرا میں پیاس کی شدت سے ایڑیاں رگڑ رہاہوں۔ ابراہیم کا بیٹا ہوں۔
اور میں جو جرم بے گناہی میں قید بھگت رہاہوں، ابراہیم کا پوتاہوں۔
اور میں جو جنگل میں بن باس کے دن کاٹ رہا ہوں۔ میں بھی ابراہیم کی آل سے ہوں کہ سچ کی راہ پر چلنے والے اور ظلم کو صبر کے ساتھ برداشت کرنے والے ابراہیم کی آل میں شمار ہوتے ہیں۔
میں وہی ہوں کنواریاں جس کے لئے ہزاروں برسوں سے انتظار کررہی تھیں۔
اور میں وہی ہوں۔۔چاندسورج اور ستارے جس کے آگے سجدہ ریز ہوں گے۔
اور میں وہی ہوں جو اپنے باپ کے تخت کا حقیقی وارث ہے۔
میں سوتیلے جذبوں کاشکار ہوں۔
میرے سوتیلے عزیز تاریخ کو جتنا مسخ کرلیں مگر وہ میرے باپ کا نام کیوں کرمٹاسکیں گے۔ کہ پھروہ خود بھی بے شناخت ہوجائیں گے۔
میں ابراہیم کا بیٹا ہوں۔
میں ابراہیم کا پوتا ہوں۔
میں آل ابراہیم سے ہوں۔
آگ ابراہیم کے لئے گلزار ہوگئی تھی تو مجھے کیونکر نقصان پہنچاسکے گی۔
’’آگ سے ہمیں مت ڈراؤ یہ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی بھی غلام ہے۔‘‘
یہ آسمانی آواز مجھے یقین دلاتی ہے کہ میری ایڑیوں کی رگڑ سے ایک چشمہ پھوٹ بہے گا اور اس کا پانی میری مدد کو آئے گا۔
مجھے جس اندھے کنوئیں میں گرایاگیاتھا آسمان سے اس میں اتنا پانی اترے گا کہ وہ کنواں چھلک پڑے گا اور بحر ہند کاٹھاٹھیں مارتا پانی سیلاب بن جائے گا۔
اور پھر سوتیلے جذبوں سے جھوٹے الزامات اور تہمتوں کے ایندھن میں بھڑکائی ہوئی نفرتوں کی ساری آگ بجھ جائے گی۔

**
میرے سوتیلے عزیزوں نے نفرت کی آگ لگادی ہے۔ اس آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کررہے ہیں۔ میرے چاروں طرف آگ پھیلی ہوئی ہے۔۔۔ سوتیلے جذبوں کی آگ..... مگر میں دیکھتاہوں کہ:
میرے بن باس کے دن ختم ہوچکے ہیں۔ میرا حق میرا تخت مجھے مل گیا ہے اور میری بیوی کی پاک دامنی کی شہادت خود تاریخ دے رہی ہے۔
میں دیکھتا ہوں کہ:
میری قید کی مدت ختم ہوگئی ہے۔ اور میں ایک اعلیٰ منصب پر سرفراز کیا گیا ہوں۔ اور چاند سورج اور ستارے میرے حضور سجدہ ریز ہیں۔
اور میں دیکھتا ہوں کہ:
تپتے ہوئے صحرا میں میرے ایڑیاں رگڑنے سے ایک چشمہ پھوٹ بہاہے ۔مری ماں کے چہرے پر خوشیوں اور مسرتوں کانور پھیلا ہوا ہے۔ وہ جو کسی قافلے کی امداد کی منتظر تھی اب ہزاروں قافلے اس کی مدد کے محتاج ہیں۔ اور اس بادشاہ زادی کو ایک نئی بادشاہت مل گئی ہے۔ اور ہزاروں برس سے میرا انتظار کرنے والی کنواریاں ،میرے گلے میں ڈالنے کے لئے اپنے ہاتھوں میں پھولوں کے ہار سجائے میری آمدکے گیت گارہی ہیں۔
اور میں یہ بھی دیکھتاہوں کہ بحر ہندکاٹھاٹھیں مارتاہواپانی، آسمان سے اندھے کنوئیں میں اترکراور پھر باہر چھلک جانے والا پانی اور میری ایڑیوں کی رگڑ سے پھوٹ بہنے والے چشمے کاپانی..... سب میری آنکھوں میں اتر آئے ہیں۔
سوتیلے جذبوں سے بھڑکائی ہوئی نفرتوں کی آگ بجھتی جارہی ہے اور اس آگ کے دوسری طرف میرے تمام سوتیلے عزیز حیرت اور خوف سے اس منظر کو دیکھ رہے ہیں۔
میں آگ کے مکمل طورپر بجھنے کا انتظارکرتاہوں۔
میں انتظار کرتاہوں جب تھوڑی دیر بعد میرے سارے سوتیلے عزیز مجرموں کی طرح میرے سامنے پیش ہوں گے۔
اور میں اس وقت کے آنے سے پہلے ہی اپنا فیصلہ لکھنے بیٹھ جاتاہوں۔
’’ لا تثریب علیکم الیوم
.....‘‘*

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*ترجمہ:آج کے دن تم سے کوئی مواخذہ نہیں کیا جائے گا۔
***

گلاب شہزاد ے کی کہانی

گلاب شہزاد ے کی کہانی

ہوا  شہکار  جب اس کا مکمل
وہ اپنے خون میں ڈوبا ہوا تھا

بے انت پھیلے ہوئے صحرا میں جب رات کا ایک پہر گزرنے کے باوجود کسی کو نیند نہ آئی تو چاروں درویش اٹھ کر بیٹھ گئے۔ پہلے درویش نے تجویز پیش کی کہ رات کاٹنے کے لئے اپنی اپنی کوئی کہانی سنائی جائے۔ سب نے اس تجویز سے اتفاق کیااور پہلے درویش سے کہا کہ وہ خود اپنی زندگی کی کسی کہانی سے ابتداکرے۔

لمبے بالوں والا پہلا درویش آگے کو جھکااور پھر یوں گویاہوا:
’’میری کہانی گلاب شہزادے کی کہانی ہے۔
گلابی رنگ کو تم بخوبی پہچانتے ہو۔ خون سرخ رنگ کاہوتاہے۔ خون میں سفید رنگ ملادیں تو وہ گلابی بن جاتاہے لیکن اگر خون ویسے ہی کہیں جم جائے تو سیاہ ہوجاتاہے۔خیرتو میں کہہ رہاتھا.. میری کہانی گلاب شہزادے کی کہانی ہے۔ لیکن اس کے لئے مجھے عملاًبتانا پڑے گا‘‘
یہ کہہ کر پہلے درویش نے اپنے تھیلے سے گلاب کی ایک قلم نکالی اور اسے ریت میں گاڑ دیا۔
’’میری کہانی کا باقی حصہ اس قلم کے بڑھنے تک ادھورا رہے گا۔ اس لئے بہتر ہے کہ آپ لوگ باری باری اپنی کہانیاں سنالیں..... میں آخر میں اپنی کہانی مکمل کروں گا۔‘‘
پہلے درویش کی اس بات پر دوسرے درویش نے اپنی کہانی شروع کی:
’’میری کہانی عام سی ہے۔ میری بیوی نے اپنی آنکھوں کے جادو اور ہونٹوں کے منتر سے مجھے گدھا بنادیاتھا اور میں کئی صدیوں سے بوجھ اٹھاتا چلا آرہاتھا۔ پھر ایک دن مجھے بھی ایک اسم مل گیا۔ میں گدھے سے انسان بن گیا اورتب میں نے اپنے اسم کے زور سے اپنی بیوی کو گھوڑی میں تبدیل کردیا۔‘‘
تیسرا اور چوتھا..... دونوں درویش اس کی کہانی بڑی دلچسپی سے سن رہے تھے جبکہ پہلا درویش گلاب کی اس قلم کو دیکھ رہا تھا جس کے ارد گرد چھوٹے چھوٹے کانٹے سے چپکے ہوئے تھے.... قلم آہستہ آہستہ بڑھ رہی تھی۔
’’اب مجھے صحیح طورپر یاد نہیں رہا کہ پھر میں نے اسے تانگے میں جوت دیا تھا،گھوڑدوڑ کے کلب میں لے گیا تھایا ویسے ہی اسے سرپٹ دوڑاتارہا.... یا پھر پتہ نہیں وہ خود ہی سرپٹ دوڑتی رہی.... دوڑتی رہی......‘‘
’’پھر کیا ہوا؟‘‘
تیسرے اور چوتھے درویش نے بڑے اشتیاق اور تجسس سے پوچھا۔
پہلا درویش ابھی تک گلاب کی اس بڑھتی ہوئی قلم کو دیکھ رہا تھا۔
’’پھر؟‘‘دوسرے درویش نے ذہن پر تھوڑا سازور دیا۔
’’پھر...جب میری بیوی اپنی پہلی تنخواہ لائی تھی تو اس کا چہرہ خوشی سے گلنار ہو رہا تھا۔ اس نے اپنی آدھی تنخواہ گھر کے اخراجات میں ڈال دی اور بقیہ آدھی بچوں کے مستقبل کے لئے بنک میں جمع کرادی اور پھر ہمیشہ ہی اس کا یہی طریق رہا۔ میری اور اس کی تنخواہ سے ہمارا گھر خاصا خوشحال ہوگیا۔ البتہ وہ اپنے باس کی بہت تعریفیں کرتی رہتی تھی۔ وہ اس کا ضرورت سے زیادہ ہی خیال رکھتے تھے‘‘۔
اچانک دوسرے درویش کی نظر گلاب کی اس قلم پر پڑی جو اس عرصے میں حیرت انگیز طور پر دو گنی ہوچکی تھی اور اب اس میں ننھے ننھے سبز پتے بھی پھوٹ رہے تھے۔ اسے یوں لگا جیسے کانٹوں میں لپٹی ہوئی گلاب کی پوری قلم کسی نے اس کے حلق میں ٹھونس دی ہو ۔
اس نے ایک جھرجھری سی لی اور پھر بے اختیارپکارا۔۔ ’’پانی.....!‘‘
پہلے درویش نے جلدی سے پانی کا کوزہ اس کے منھ سے لگادیا۔
گلاب کی قلم کچھ اور سرسبز ہوگئی اور سبز پتوں کے ساتھ ایک سرخ پتہ بھی ابھر آیا دوسرے درویش نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے یہ منظر دیکھا اور دم توڑدیا۔
باقی تینوں درویشوں نے دیکھاکہ بے انت پھیلے ہوئے صحرانے خود کو خاصا سمیٹ لیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔رات کا دوسرا پہر گزر چکا تھا۔

تیسرے درویش نے ایک گہرا سانس لیا اور اپنی کہانی شروع کی:

’’جیسا کہ آپ جانتے ہیں تاریخ اور جغرافیے سے مجھے گہری دلچسپی ہے اور مرا تعلق بھی آثارقدیمہ سے ہے..... تین بچوں کی پیدائش کے بعد میری بیوی نے مجھے مشورہ دیاکہ میں خاندانی منصوبہ بندی پر عمل کروں۔ چنانچہ میں نے غبارے استعمال کرنا شروع کردےئے.... مرا گھر خاصا چھوٹا اور تنگ سا ہے۔ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ استعمال کے بعد میں نے غبارہ نالی میں پھینکنے کی بجائے کونے میں پڑی بڑی میز کے پیچھے پھینک دیا۔ میز کے نیچے پڑے ڈھیر سارے کباڑ میں وہ غبارہ چھپارہتا۔ پھر کبھی خیال آتا تو اسے اٹھا کر نالی میں پھینک دیتا۔‘‘
چوتھادرویش اسے عجیب سی نظروں سے دیکھ رہاتھا۔
’’ایک دفعہ کسی کھنڈرسے کئی ہزار سالہ پرانی کھوپڑی دریافت ہوئی تو اس کے مطالعہ کے لئے مجھے بلایاگیا۔ کھوپڑی کے مطالعہ کے بعد جب میں گھر آیاتو اپنی میز کے نیچے کباڑ میں سے کوئی چیز ڈھونڈتے ہوئے مجھے ایک سوکھا ہوا مڑا تڑاسا غبارہ مل گیا۔ میں نے اسے دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا.... یوں لگ رہا تھا جیسے وہ کھوپڑی اس غبارے میں موجود ہو اور وہ کھوپڑی مرے اپنے بیٹے کی ہو‘‘
چوتھادرویش اس کی کہانی میں خاصی دلچسپی لے رہا تھا۔
پہلا درویش گلاب کی اس مسلسل بڑھتی ہوئی قلم کو دیکھ رہا تھا جس میں سے اب شاخیں بھی پھوٹنے لگی تھیں۔
’’میں خوف سے کانپ اٹھا۔ مجھے لگامیں نے اپنے بیٹے کو قتل کرکے اس کے سرکو محض کھوپڑی بنادیاہے۔ میں نے اپنی بیوی کو اپنا خوف بتایا۔ پہلے تو اس نے شور مچادیا ’’خاندانی منصوبہ بندی ختم نہیں کرنے دوں گی۔ مری صحت پھر تباہ ہو جائے گی‘‘ لیکن بالآخر مرا خوف اس کی ضد پر غالب آگیا۔
جس دن اس نے مجھے خوشخبری سنائی.... مجھے یوں لگا جیسے ہزاروں برس پہلے کھو جانے والی مری کوئی قیمتی چیز مجھے دوبارہ ملنے والی ہے۔‘‘
تیسرے درویش کی نظر گلاب کی اس قلم کی طرف اٹھ گئی جو اَب گلاب کے چھوٹے سے پودے میں ڈھل گئی تھی۔
اسے یوں لگا جیسے گلاب کا پودا اس کے اندر ہے اور کوئی اُسے اُس کے حلق سے باہر کھینچ رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔وہ خوف سے چلّایا:’’پانی....!‘‘
پہلے درویش نے جلدی سے پانی کا کوزہ اس کے منھ سے لگادیا۔
گلاب کا پودا کچھ اور پھیل گیااس کے سبز پتوں میں ایک اور سرخ پتہ ابھرآیا۔
تیسرے درویش نے خوفزدہ آنکھوں سے یہ منظر دیکھااور دم توڑدیا۔
باقی دونوں درویشوں نے دیکھا کے بے انت پھیلے ہوئی صحرا نے خود کو آدھا سمیٹ لیا ہے ،رات کا تیسرا پہر گزر چکاتھا۔

چوتھے درویش نے مشکوک نظروں سے پہلے درویش کو دیکھا اور قدرے چوکنّا ہوکر اپنی کہانی بیان کرنے لگا:

’’یہ کہانی دراصل میری نہیں۔میرے ایک دوست کی ہے۔ میں اسے اسی کی زبان میں بیان کروں گا‘‘
چوتھے درویش نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا۔
’’مرابھائی گہری نیند سویا ہواتھا میں اس کے کمرے میں بیٹھاکوئی کام کررہاتھا۔ اچانک میں نے دیکھا کہ مرے بھائی کی ناک سے شہد کی ایک مکھی نکلی..... قریب ہی پانی کا ایک ٹب پڑاتھا۔ جس میں لکڑی کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا تیر رہا تھاجو شاید کسی بچّے نے ڈال دیا تھا.... شہد کی مکھی اڑ کر لکڑی کے اُس ٹکڑے پر جا بیٹھی۔ کچھ دیر بعد پھر اُڑی اور مرے بھائی کی ناک میں داخل ہوگئی.... میں یہ منظر بڑی حیرت سے دیکھ رہاتھا‘‘۔
’’اچھا ۔پھر کیا ہوا؟؟‘‘پہلے درویش کی مسکراہٹ بڑی سفّاک تھی، وہ اب بھی گلاب کے اُس پودے کو دیکھ رہا تھا جو مسلسل پھلتا پھولتاجارہا تھا۔
’’پھر ۔۔پھر۔۔‘‘ چوتھا درویش خوفزدہ انداز میں اِدھر اُدھر دیکھ کر بولا:
’’پھر میرا بھائی بیدارہوگیا۔ اس نے اپناایک حیرت انگیز خواب سنایا.... اس نے بتایاکہ وہ کسی دریا کے کنارے کھڑا تھا کہ لکڑی کاایک بڑا سا تختہ تیرتا ہوا اس کے قدموں میں آگیا،وہ اس پر سوار ہوگیا۔ جب وہ تختہ اسے دوسرے کنارے پرلے گیا تو اس نے دیکھا کہ وہ جگہ خزانوں سے بھری پڑی ہے۔مگر وہ اکیلا یہ خزانے نہ اٹھا سکتا تھا، اس لئے دوسرے ساتھیوں کو لینے کے لئے واپس آگیا‘‘
’’حیرت ہے..... حیرت ہے!‘‘ پہلا درویش بڑے مکّارانہ انداز میں بولا۔ اس کی نظریں اب بھی گلاب کے اس پودے پر گڑی تھیں جو اَب بڑی شان سے لہلہارہا تھا، چوتھا درویش گھبرائے ہوئے لہجے میں بولا:
’’میں بھائی کا خواب سمجھ گیا۔میں نے اسے قتل کردیااور وہ جگہ جہاں ٹب پڑا تھا اور شہد کی مکھی لکڑی کے ٹکڑے پر تیرتی رہی تھی، اسے کھود ڈالا... وہاں واقعی خزانے تھے .... مگر.....مگر......‘‘
’’مگرکیا؟‘‘پہلے درویش کے لہجے میں تشویش کی ہلکی سی پرچھائیں ابھری۔
چوتھے درویش کی نظریں اس لہلہاتے ہوئے گلاب کے پودے پر پڑیں۔
اور پھروہی کیفیت.....
’’پانی.....!‘‘
پہلے درویش نے جلدی سے پانی کا کوزہ اس کے منہ سے لگادیا۔ مگر چوتھے درویش نے کوزہ اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔پانی پیا۔
پھر گلاب کے پودے میں ایک اور سرخ پتے کو ابھرتے ہوئے دیکھا۔
خوف سے جھرجھری لی۔
’’مگر کیا.....؟‘‘پہلے درویش نے اسے جھنجھوڑ کر پوچھا۔
’’مگر.....یہ کہانی مرے دوست کی نہیں..... مری اپنی ہے..... اپنی.....‘‘ اور پھر چوتھے درویش نے بھی دم توڑ دیا۔
سارے صحرا نے خود کو سمیٹ کر پہلے درویش کے قدموں میں ڈال دیا۔
رات کاآخری پہر گزرچکاتھا۔
پوپھوٹ رہی تھی۔
پہلے درویش کے وحشیانہ قہقہے صحر امیں گونجنے لگے۔
’’ہاہاہا..... اب اس صحرائی علاقے کی تیل کی دولت کا میں تنہا مالک ہوں۔ ایٹمی جنگ میں جتنے لوگ بھی بچ گئے ہوں گے سب مری رعایا ہیں..... اور میں اس نئے عہد کا حکمران..... عظیم حکمران..... ہا ہا ہا.....‘‘
اچانک اسے شدید پیا س کا احساس ہوا۔ اس نے کوزے کو دیکھا۔ کوزہ خالی ہوچکا تھا۔وہ گھبراگیا۔اور پھر پانی کی تلاش میں اِدھر اُدھر دوڑنے لگا۔
وہ دوڑ تارہا..... دوڑتا رہا.....
اور سمٹاہوا صحراپھیلتارہا..... پھیلتارہا.....
سورج نصف النہار تک پہنچ گیا۔
ا س کے سامنے تیل کے چشموں کاذخیرہ تھا، کنووں کی بجائے چشمے!
مگر پانی؟۔۔۔۔۔
پیاس کی شدّت،
شدید تھکاوٹ،
اور مسلسل پھیلتاہوا صحرا
وہ تیل کے چشمے پر ہی پیاس بجھانے کے لئے جھک گیا۔
**

اس کا آدھا جسم باہر پڑا تھا۔ سرپانی کے چشمے میں ڈوبا ہوا تھا۔پھیلی ہوئی بانہیں آدھی سے زیادہ چشمے میں اور باقی باہر اور..... لمبے لمبے بال پانی میں لہراتے تیر رہے تھے۔

اس کی مردہ آنکھیں بھی پانی کے چشمے کو تیل کا چشمہ سمجھ رہی تھیں۔
گلاب کے پودے پر ایک بڑا سا پھول اُگ آیاتھا۔
گلاب کے اس پھول کارنگ غیر معمولی حد تک گہراسیاہ تھا۔
گلاب شہزادے کی کہانی مکمل ہوچکی تھی۔
مگر نہ کوئی اسے سنانے والا تھا، نہ سننے والا
***

غریب بادشاہ

غریب بادشاہ

جو تجھ کو ملنے سے پہلے بچھڑ گیا حیدر
تو کس طرح اسے پانے کی آس رکھتا ہے

’’تساں بادشاہ ہواساں کوں غریبی‘‘

چلچلاتی دھوپ میں صرف ایک دھوتی میں ملبوس، سجدہ ریز اور دونوں ہاتھ جوڑ کر آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے، پسینے سے شرابور اس مجہول سے فقیر نے جس انداز میں یہ مصرعہ گاتے ہوئے پڑھاہے اس کا ایک ایک لفظ اپنی تمام تر معنویت کے ساتھ میری روح میں اتر گیا ہے۔ میں رک گیا ہوں اور حیرت سے اس مجہول فقیر کو دیکھ کر اپنی جیب میں ہاتھ ڈالتاہوں اور ایک سرخ نوٹ اس کے جوڑے ہوئے ہاتھوں میں پھنسادیتاہوں..... ماہ رخ نے میری اس سخاوت کو حیرت سے دیکھا ہے لیکن بولی کچھ نہیں۔ اس کے قرب سے مجھے لگتا ہے میں سچ مچ کا بادشاہ ہوں۔
**
’’میں جب بھی اس شہر میں آتاہوں یہاں کی کوئی نہ کوئی شے مجھے متاثر کرلیتی ہے، ہلاکر رکھ دیتی ہے‘‘
’’مثلاً؟‘‘
’’مثلاً..... پہلی بار جب میں آیا تو اپنی فرم کی طرف سے کمرشیل وزٹ پر آیا تھا مگر یہاں تم سے نہ صرف ملاقات ہوگئی بلکہ پہلی ملاقات میں ہی اتنی فرینک نیس ہوگئی جیسے ہم ازل سے ایک دوسرے کے ساتھی ہوں۔‘‘
’’ہوں!.....اور اس بار؟‘‘
’’اس بار.....اس مجہول فقیر کے گنگناتے ہوئے بول نے مجھے ہلاکر رکھ دیا ہے‘‘
’’کیاواقعی تم اس سے متاثر ہوگئے ہو؟‘‘
’’یقین کرو نہایت عجیب اور انوکھا سرور محسوس کررہاہوں۔‘‘
’’شاید تمہیں فو ک سانگس سے دلچسپی ہے!‘‘
’’ہاں شاید یہی وجہ ہو یا شاید.....‘‘
’’میں تمہارے لئے اس طرح کے گیتوں کی ایک کیسٹ تیار کروالوں گی لیکن تمہاری اتنی گہری دلچسپی کا آخر کوئی جواز بھی تو ہوگا؟‘‘
میں ماہ رخ کی طرف دیکھتا ہوں وہ پورے انہماک سے میرے جواب کی منتظر ہے۔
’’فوک سانگس سے میری دلچسپی کا پس منظر بڑا عجیب سا ہے۔
ایک دفعہ میں اپنے ایک دوست کے ہاں بھٹہ واہن گیا۔ وہاں مجھے پتہ چلا کہ سسّی کی جنم بھومی بھٹہ واہن تھی۔ وہاں کے راجہ کی بیٹی، سسّی جسے راجہ نے نجومیوں کے مشورے کے بعد صندوق میں بند کرکے دریا کے دھاروں کے سپرد کردیاتھا اور یوں وہ بھٹہ واہن سے بھنبھور پہنچ گئی۔‘‘

میں سسّی کی طرف دیکھتا ہوں وہ پورے انہماک سے اپنی داستان سن رہی ہے:

’’وہاں تمہاری پیدائش محل کے جس حصے میں ہوئی تھی اس کے کھنڈرابھی تک موجود ہیں۔ میں اس جگہ گیا تو میرا دل بھر آیا۔ روشنی کی ایک لکیر میرے اندر سے پھوٹی اور مجھ پر منکشف ہوا کہ میں ہی پنوں تھا۔ جو تمہیں تلاش کرتے ہوئے اس کھنڈر تک پہنچ گیا ہوں لیکن روشنی کی لکیر جو میرے اندر سے پھوٹی تھی وہ ایک دائرہ بن کر مجھے منور کرنے لگی تو مجھے محسوس ہوا کہ میں ہی پنوں تھا اور میں ہی مجنوں تھا، میں ہی فرہاد تھا اور میں ہی رانجھا تھا،میں ہی کرشن تھا اور میں ہی مہندرا تھا..... میں ہر روپ میں تمہیں ڈھونڈتا تھا اور تمہارے جتنے بھی نام تھے سسّی، لیلیٰ، شیریں، ہیر، رادھا۔ مومل سب ایک تھے اور میرے بھی جتنے نام ہیں سب ایک ہیں.... لیکن ہم صدیوں سے ایک دوسرے کی تلاش اور جستجو میں حصے بخرے ہوتے چلے جارہے ہیں اور ہمارے ہر حصے میں دکھ کی ایک کہانی بنتی چلی جارہی ہے۔۔۔۔۔۔‘‘
’’بھئی!یہ کیا حماقت ہے؟.....ہم لوگ کتنی دیر سے تمہارا انتظار کررہے ہیں کھانا ٹھنڈا ہورہاہے۔‘‘ماہ رخ کی چہکار نے مجھے جاگتی نیند سے بیدار کردیاہے۔ میں بے جان مسکراہٹ کے ساتھ اس کی طرف دیکھتا ہوں اور پھر ڈائننگ روم کی طرف چلنے لگتا ہوں۔
کھانے کے دوران ماہ رخ کے پاپانے کارخانوں کی پیداواری صلاحیت بڑھانے کا مسئلہ چھیڑاتو ماہ رخ نے کہا:
’’اس کے لئے مزدورکواعتماد میں لینا ضروری ہے۔ جب تک اسے شرکت کا احساس نہ دلایاجائے گا تب تک کارخانوں کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ نہیں ہوسکتا‘‘
’’نوجوانی میں پڑھے لکھے ذہنوں کو سوشلزم کا طلسم متاثر ضرور کرتاہے، پختگی آنے سے پہلے نوجوان ایسی ہی جوشیلی باتیں کرتے ہیں..... ا س بحث سے ہٹ کر دیکھیں تو آج کے مزدوروں کی فطرت کا یہ عالم ہے کہ ان کی دائیں مٹھی میں نوٹ دے دیں تو بایاں ہاتھ آگے کردیں گے، بائیں ہاتھ کو بھردیں تو دایاں ہاتھ آگے کردیں گے۔ جہاں نوٹ ملنے میں اسٹاپ آیاوہیں حق تلفی کے نعرے گونجنے لگیں گے۔‘‘
ماہ رخ کے پاپا کے لفظوں سے ایک منجھے ہوئے کارخانہ دارکی شخصیت اپنی جھلک دکھا رہی تھی ۔
’’میرا خیال ہے مل مالکان اور مزدوروں میں فاصلہ ملز انتظامیہ کی بداندیشی سے پیداہوتاہے۔ انتظامیہ کے افسران کی غلط پالیسیاں بھی نفاق کا باعث بنتی ہیں مثلاً میرے اِدارہ کے میرے ایک کولیگ جو ایک دوسرے ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ ہیں ان کی پالیسی یہ ہے کہ مہینے میں ایک دو بار ہر مزدور کو کسی سبب سے یا بلا سبب جھاڑضرور پڑنی چاہئے اس طرح یہ لوگ اپنی اوقات میں رہتے ہیں‘‘
’’کتنی گھٹیا ذہنیت ہے ایسے لوگوں کی‘‘ ماہ رخ اس وقت کسی کارخانہ دار کی بیٹی کی بجائے کسی مزدور یونین کی لیڈر لگ رہی تھی....’’بر صغیر کی تاریخ میں.....‘‘
لیکن اس سے پہلے کہ مزدوروں اور کارخانہ دار کا مسئلہ کوئی سنگین صورت اختیار کرتا ماہ رخ کے پاپا ہنستے ہوئے معذرت کرکے اٹھ گئے اور برصغیر کی تاریخ کے تذکرے سے بات کا رخ ہندوستانی کلچر اور تہذیب کی طرف مڑ گیا،
’’قدیم کلچر آج بھی کسی نہ کسی روپ میں ہمارے ساتھ ہے۔ جذباتی نعرے بازی کرکے اس سے فرار حاصل نہیں ہوسکتا۔ ہماری پیدائش سے لے کر شادی، بیاہ اور مرگ تک کی رسومات پر قدیم ہندوستانی کلچر کی چھاپ اتنی گہری ہے کہ کھرچنے سے بھی ختم نہ ہو۔‘‘
’’یہ ٹھیک ہے۔ لیکن اب ہماری اپنی تہذیب کا رنگ جمتا جارہاہے، اور ہماری اپنی تہذیب اس سے زیادہ خوبصورت ہے‘‘
’’یہ تہذیب بھی اس کلچر کے اثرات سے خالی نہیں،کلچر گم نہیں ہوتا بلکہ قدرے مختلف روپ میں پھر سامنے آجاتاہے۔‘‘
’’بابا!اس میں کلچر کاکیاکمال ہے۔ یہ تو دھرتی کا کمال ہے۔ جغرافیے کا کمال ہے۔ یہاں کی مٹی،یہاں کے دریا، پہاڑ، کھیت، جنگل، آب و ہوا، انہیں سے ہی تمہارے قدیم کلچر کی تشکیل ہوئی تھی اورانہیں عناصر ہی سے ہمار ی تہذیب بن رہی ہے اس میں جغرافیے کے ساتھ ساتھ ہماری ہسٹری بھی شامل ہوگئی ہے‘‘
اور پھر بحث اس اتفاق پر ختم ہوئی کہ قدیم ہندوستانی کلچر کے ایک مخصوص موضوع ’’رسم شادی‘‘ پر ایک تازہ ویڈیو فلم دیکھی جائے۔
**
گھنے جنگل کے درمیان ایک وسیع و عریض میدان،
گہری تاریک رات،
میدان کے ایک سرے پر ایک چبوترے پر قبیلے کا سردار اپنی قبائلی آن بان کے ساتھ براجمان ہے۔ اس کے پیچھے، دائیں بائیں جری کمان دار چوکس کھڑے ہیں۔ میدان کے وسط میں آگ کا بہت بڑا الاؤ روشن ہے۔ سردار کے دائیں ،بائیں دونوں اطراف سے لے کر میدان کے دوسرے سرے تک الاؤ کے گرد لوگوں کاایک دائرہ سا بن گیاہے، لوگوں نے اپنے سیاہ چہروں پر چکناہٹ مل کر خود کو چمکایا ہوا ہے، ڈھولک کی تھاپ گونجتی ہے اور پھر گونجتی ہی چلی جاتی ہے۔ پھر اس تھاپ کے ساتھ ایک عجیب سا سازاُبھرتا ہے۔ مجھے لگتا ہے میں اس ساز سے واقف ہوں لیکن کچھ یاد نہیں پڑتا۔ عجیب سا ساز ہے،ایک لمحے میں روح کی پاتال تک اتر جاتاہے اور دوسرے لمحے میں خوفزدہ کردیتا ہے۔ مسرت اور خوف کی عجیب سی کشمکش..... اچانک قبیلے کے سردار کی پاٹ دار آواز گونجتی ہے اور ڈھولک اور ساز کی آواز قدرے مدھم ہوجاتی ہے۔ سردار نے پتہ نہیں کیا کہا ہے ۔ ایک نوجوان لڑکی شرمائی شرمائی سی، اپنے ہاتھ میں موتیوں کی مالالئے آگے بڑھنے لگتی ہے۔
قبیلے کے سردار نے پھرکچھ کہاہے اور اب دو نوجوان لڑکے ایک ساتھ آگے بڑھ آئے ہیں۔ ڈھولک کی تھاپ اور اس مانوس سے ساز کی آواز ایک دم تیزہوجاتی ہے۔ جلتے ہوئے الاؤ کی سرخ زبانیں کچھ اور لمبی ہوگئی ہیں۔ وہ نوجوان لڑکی دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی ان نوجوانوں کی طرف بڑھ رہی ہے... اب وہ دونوں کے رو برو کھڑی ہے۔ دونوں نوجوانوں کے اوپر کے سانس اوپر اور نیچے کے سانس نیچے رک گئے ہیں.... ڈھولک کی تھاپ اور اس ساز کی آواز کچھ اور تیز ہوجاتی ہے۔ اور پھر.... لڑکی نے ایک نوجوان کے گلے میں ہارڈال دیا۔
مجھے پتہ نہیں کیاہوا، میں نے تیزی سے اٹھ کر وی سی آر کا سوئچ آف کردیا۔
’’یہ کیا؟‘‘ ماہ رخ نے الجھے ہوئے انداز میں پوچھا۔
’’بس۔اب آگے اس ہار جانے والے نوجوان کا حال نہیں دیکھا جائے گا۔ بے چارہ!‘‘
’’اس میں بے چارگی کی کیا بات ہے۔ قدیم ترین زمانوں میں تو لڑکی کے سارے امیدوار لڑتے تھے، ایک دوسرے کو قتل کرتے تھے۔ جو آخر میں فتح یاب ہوتاتھا وہ شادی کا حق دار بنتا تھا۔ یہ تو اس زمانے کے بعد کی فلم ہے‘‘
**
ماہ رخ کے پاپا کی فیکٹری سے متعلق ہمارے ادارے کا کام آج مکمل ہوگیاہے اورآج ہی میرا واپسی کا ارادہ ہے تاہم میں نے طے کیاہے کہ جانے سے پہلے ماہ رخ سے شادی کے مسئلہ پر بات کرہی لوں۔ ہماری دوستی جتنی تیزی سے بڑھی ہے اس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ہمیں رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوجانا چاہیے۔ یوں بھی آج صبح سے ہی ماہ رخ خاصے خوشگوار موڈ میں ہے۔ اس پیش کش سے اس کا خوشگوار موڈرومینٹک بھی ہوجائے گا۔
’’کیا تمہیں پتہ ہے میں اپنے مذہبی تہوار منانے کے ساتھ ساتھ دوسروں کے مذہبی تہوار بھی اسی عقیدت اور احترام کے ساتھ مناتی ہوں۔ کرسمس، بیساکھی، دیوالی......‘‘
’’یہ بڑی اچھی بات ہے اگر ساری قومیں اسی طرح ایک دوسرے کے جذبات کا احترام کرنے لگیں تو دنیا میں مذہب کے نام پر کبھی کوئی فتنہ فساد پیدا نہ ہو‘‘
’’آج کا دن میرے لئے دوہری خوشی لایا ہے۔ ایک تو یہ کہ آج بھی ایک تہوار ہے اور دوسری یہ کہ آج ہم ایک مقدس رشتے میں منسلک ہونے کا اقرار کریں گے‘‘
(مقدس رشتے کی بات سن کر میرادل مارے خوشی کے دھڑکنا بھول گیاہے، واقعی دل کو دل سے راہ ہوتی ہے۔ میں نے آج خود ماہ رخ سے رشتے کی بات چھیڑنی تھی مگر میرے بات کرنے سے پہلے وہ خود یہی بات طے کرچکی ہے)
’’میں نے کئی نوجوان دیکھے ہیں مگر کوئی بھی میرے معیار پر پورا نہیں اُترا۔ تم پہلے نوجوان ہو جس کی آنکھوں کی سچائی کو میرے دل نے تسلیم کیاہے اور جو صحیح معنوں میں میرے کڑے معیار پر پورا اُتراہے‘‘
(میرے انگ انگ میں مسرّت بھر گئی ہے)
’’میں نے ابھی ڈیڈی سے بات کی تھی وہ بھی میرے انتخاب پر بے حد خوش ہیں‘‘
(مسرّت میرے انگ انگ میں لبالب بھرنے کے بعد اب ندی کے دھاروں کی طرح چھلکنے لگ گئی ہے)
’’لاؤ اپنا ہاتھ اِدھر لاؤ‘‘
میں نے آنکھیں موند کر اپناہاتھ اس کی طرف بڑھادیاہے۔ بے خودی اور سر شاری کی کیفیتیں مجھے شرابور کررہی ہیں۔
’’آج کے دن بہنیں اپنے بھائیوں کو راکھی باندھتی ہیں۔ میرا کوئی بھائی نہیں جسے میں راکھی باندھتی لیکن آج میری زندگی کا یہ ادھوراپن ختم ہورہاہے‘‘
میرے دل ،دماغ اور سماعت پر سینکڑوں ایٹم بم گر گئے ہیں۔ آنکھیں کھول کر دیکھتا ہوں تو آنکھوں پر بھی ہزاروں ایٹم بم گر گئے ہیں۔ اس نے مجھے راکھی کے بندھن میں باندھ لیاہے،،
میرے اندر ایک گھناجنگل اُگ آیاہے اور جنگل کے درمیان ایک وسیع میدان میں (میرے سینے کے عین وسط میں) آگ کا ایک بہت بڑا الاؤ روشن ہے۔ سارا قبیلہ جمع ہے۔ ڈھولک کی تھاپ تیز ہوگئی ہے اور اس کے ساتھ ہی اس ساز کی آواز بھی تیز ہوجاتی ہے جو ایک لمحے میں روح کی پاتال تک اُتر جاتاہے اور دوسرے لمحے میں خوفزدہ کردیتاہے، میں اس ساز کو اب پوری طرح جان گیاہوں سب کچھ یاد آگیاہے۔ لڑکی نے موتیوں کا ہار دوسرے نوجوان کے گلے میں ڈال دیاہے، میں اپنی شکست کا منظر نہیں دیکھنا چاہتامگر اب وی سی آر کا سوئچ تو نہیں جسے آف کرکے فرار ممکن ہوسکتاہے۔ میرے اندر اور باہر میری شکست کے منظر ہیں۔
ماہ رخ نے سچ کہا تھا’’کلچر گم نہیں ہوتا بلکہ قدرے مختلف روپ میں پھر سامنے آجاتاہے‘‘
**
چلچلاتی دھوپ میں صرف ایک دھوتی میں ملبوس ،سجدہ ریز اور دونوں ہاتھ جوڑ کر آسمان کی طرف اُٹھائے ہوئے ،پسینے سے شرابور وہ مجہول فقیر اب بھی وہی مصرعہ گاتا چلا جا رہا ہے:
’’تساں بادشاہ ہو اساں کوں غریبی‘‘
میں نے پرس میں صرف واپسی کے کرائے کے پیسے رکھے ہیں اور جیبوں تک سے نکال کر سارے چھوٹے بڑے نوٹ اس فقیر کو دے دیئے ہیں۔
ماہ رخ نے تعجب سے مجھے دیکھ کر پوچھا ہے ’’یہ کیا؟‘‘
’’صرف واپسی کا کرایا‘‘
’’تساں بادشاہ ہو اساں کوں غریبی‘‘
اس عارفانہ کلام کی ایک نئی معنویت مجھ پر آشکار ہوتی ہے۔
ماہ رخ کے قرب سے میں اب بھی خود کو بادشاہ محسوس کرتاہوں مگر غریب بادشاہ
***

دُھند کاسفر

دُھند کاسفر

کسی کا جھوٹ جب اس عہد کی سچائی کہلایا
ہمارا  سچ  تو  خود  ہی  موردِ الزام  ہونا  تھا

’’گاڑی ٹھہرانا مقصود ہوتو زنجیر کھینچئے۔

بلاوجہ زنجیر کھینچنے والے کو پچاس روپے جرمانہ ہوگا۔‘‘
میں ٹرین کے ڈبے میں لکھی یہ تحریر حیرت سے پڑھتا ہوں اور اس کے اوپر لٹکی ہوئی زنجیر کو دیکھتا ہوں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ زنجیر کھینچنے سے یہ گاڑی کیسے رک سکتی ہے۔
آپی اپنی سیٹ پر بیٹھی ٹانگیں ہلارہی ہے۔
بلوساتھ والی مسافر خواتین کو مختلف چیزیں کھاتا دیکھ کر امی کو مخاطب کرتی ہے اور پھر ہنسنا شروع کردیتی ہے۔
’’امی....ہیں ہیں ہیں‘‘
امّی اسے گھورتی ہیں مگر ڈھائی سال کی بچی کو کیا پتہ کہ ماں کیوں گھور رہی ہے۔ امی نے اپنے ساتھ موجود بڑے سے تھیلے سے کھانے کی کچھ چیزیں نکال کر بلو اور آپی کو دی ہیں۔ آپی میرے حصے کی چیز لاکر مجھے دینے لگتی ہے۔
دوسال پہلے کی بات ہے جب ہم چار سال اور تین سال کے تھے۔ تایاجی ہمارے ہاں آئے تھے۔ پھر تھوڑی دیر کے لئے کہیں باہر چلے گئے تو آپی نے اور میں نے مشترکہ طورپر سوچا کہ ہمارے تایاجی گم ہوگئے ہیں اور پھر صلاح کی کہ ہم دونوں چل کر انہیں ڈھونڈتے ہیں۔ ہم بڑی خاموشی سے گھر سے نکل آئے۔ قریبی بازار تک آئے۔ پھر پتہ نہیں کیا ہوا۔ راستے گم ہونے لگے اور تایاجی کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہم خود گھر کا راستہ بھول گئے، نہ تایاجی ملے نہ گھر کا راستہ۔ سڑک کے کنارے کھڑے ہوکر ہم دونوں نے رونا شروع کردیا۔کسی شریف دوکاندار نے ہمیں اپنی دوکان پر بٹھالیا اور ڈھیر ساری مٹھائی بھی ہمارے سامنے رکھ دی۔ ہم نے مٹھائی کھانے کے ساتھ رونے کا عمل بھی جاری رکھا تاوقتیکہ تایاجی اور اباجی ہمیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہاں تک نہ آگئے۔ تب ہم مارے خوشی کے باقی مٹھائی اٹھانا بھی بھول گئے۔
’’بھائی! یہ لونا اپنی چیز۔ ‘‘
آپی کی آواز میں جھنجھلاہٹ ہے اور میں چونک اٹھتا ہوں۔
’’جی ۔ہاں۔آں۔‘‘میں اپنے حصے کی چیز لیتا ہوں اور پھر اسے وہ زنجیر اور اس کے نیچے لکھی تحریر دکھاتاہوں وہ بھی حیران ہوتی ہے مگر اس طرح ڈرکرامی کے پاس بھاگ جاتی ہے، جیسے اس کے دیکھنے سے ہی زنجیر کھنچ جائے گی اور گاڑی رک جائے گی.... بلو اپنے حصے کی چیز کھا کر پھر ان خواتین کی طرف دیکھتی ہے جو مسلسل کچھ نہ کچھ کھائے جاری ہیں اور پھر ’’امی..... ہیں ہیں ہیں‘‘ کی گردان شروع کردیتی ہے۔ امی پھر تھیلے میں ہاتھ ڈالتی ہیں۔
میں ان خواتین کی طرف دیکھتاہوں۔ ان میں سے ایک بے حد خوبصورت عورت مجھے بڑے غور سے دیکھ رہی ہے۔ مجھے عجیب سا محسوس ہوتاہے۔ اس کی نگاہوں سے سورج کی کرنیں میری جسم پر اترنے لگتی ہیں اور میں جیسے ایک دم جوان ہونے لگتاہوں۔ پانچ سے دس، دس سے پندرہ، پندرہ سے بیس اور بیس سے پچیس۔ اب میں پچیس سال کا بھرپور جوان ہوگیاہوں۔ مگر گاڑی کا سارا منظر بدل چکا ہے۔ زنانہ ڈبہ کی بجائے مردانہ ڈبہ ہوگیاہے۔ میرے پاس سیٹ بھی نہیں ہے۔ فر ش پر اکڑوں ہو کر بیٹھا ہوں اور سارے فرش پر بھی اتنا رش ہے کہ بیٹھے بیٹھے پہلو بدلنا مشکل ہے۔
ایک اسٹیشن پر مسافروں کاایک بڑا تیز ریلااندر آتا ہے۔ چھوٹے سے اسٹیشن پر اتنے مسافر!..... شاید کوئی بارات ہو۔ !گاڑی چلتی ہے تو مسافروں کے اوسان بحال ہونے لگتے ہیں۔ ایک مسافر نے ٹرین کے چیکر کو ایک ایسی گالی دی ہے کہ میرے چودہ طبق روشن ہوگئے ہیں۔ دوچار اور مسافروں نے بھی ایسی ہی گالیاں دیں تو پتہ چلاسارے بے چارے فرسٹ کلاس کے فرش پر بیٹھے تھے۔ سب سے دس دس روپے جرمانہ وصول کرکے بغیر رسید کے سب کو اس ڈبے میں دھکیل دیاگیاہے۔
گالیوں کا سلسلہ بڑھنے لگتاہے۔گالیاں ریلوے کے مختلف افسران سے ہوتی ہوئی ریلوے کے چیئرمین تک پہنچ چکی ہیں۔پھر وزیر ریلوے بھی اس کی زد میں آجاتے ہیں۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ بالکل میرے قریب بیٹھے ہوئے ایک ’’یک چشم‘‘ داڑھی والے نے دانت پیستے ہوئے بابائے قوم کو بھی گالی دے دی ہے۔میں سنّاٹے میں آگیاہوں۔
اس کی بدزبانی پر کوئی احتجاجی آواز بھی نہیں ابھری۔
مجھے لگتاہے ہم سب زمین میں دھنستے جارہے ہیں۔
گردن تک ہم زمین میں دھنس گئے ہیں۔
میرے اندرکاوہ پانچ سالہ بچہ نکل کر زنجیر کے پاس جا کھڑا ہوا ہے اور میرے اشارے کا منتظر ہے۔ میں اس یک چشم داڑھی والے کو سخت لعن طعن کرتاہوں۔
’’بابائے قوم کاکیا قصورہے؟ یہی کہ اس نے تمہیں آزادی دلائی ہے..... میں لمبی چوڑی تقریر کرتاہوں۔ مگر وہ یک چشم داڑھی والا بڑی متانت سے پھر وہی گالی بابائے قوم کا نام لے کر دہراتاہے۔
آخر میں اپنے اندر کے اس پانچ سالہ بچے کو اشارہ کرتاہوں کہ وہ زنجیر کھینچ دے مگر اس دوران ہی ایک بے حد خوبصورت خاتون سے اس کی آنکھیں چار ہوتی ہیں اور وہ جوان ہونے لگتاہے۔ پہلے وہ زنجیر کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ اب اس خوبصورت خاتون کو حیرت سے دیکھ رہا ہے۔ میں خودآگے بڑھ کر زنجیر کھینچ دیتاہوں۔۔۔۔۔۔’’اس خبیث کو ابھی گرفتار کراتاہوں۔ ذلیل انسان بابائے قوم کے دیس میں بابائے قوم کو گالیاں دیتاہے۔ ‘‘
گاڑی رک گئی ہے۔ ریلوے گارڈ، ٹکٹ چیکر اور کچھ پولیس والے آ چکے ہیں۔ میں انہیں بتاتاہوں کہ اس ذلیل شخص نے بابائے قوم کی شان میں گستاخی کی ہے۔ مگر شاید ریلوے کے عملہ کو میری بات سمجھ نہیں آتی۔ گارڈ اور چیکر میری بات سے جھلاگئے ہیں۔
اور پھر چیکر میرے جرمانے کی رسید کاٹنے لگتاہے۔
پچاس روپے جرمانہ ادا کرتے ہوئے میرے ہونٹوں پر وہی گالی مچلتی ہے جو اس سے پہلے وہ یک چشم داڑھی والا بابائے قوم کے خلاف بکتارہاتھا۔ مگر میں گالی کو ہونٹوں پر اترنے سے پہلے ہی روک لیتاہوں۔ پتہ نہیں بابائے قوم کے احترام کے باعث یا ان پولیس والوں کے باعث جو ریلوے گارڈ اور ٹکٹ چیکر کے ساتھ کھڑے ہیں۔اتنا ضرور ہے کہ میں ایک دم چھوٹا ہوتا جارہاہوں اور گھٹتے گھٹتے ایک نقطے میں ڈھل گیا ہوں۔ زنجیر کے نیچے کھڑا پانچ سالہ ’’میں‘‘ پھر حیرت سے اس تحریر کو پڑھ رہاہوں۔
’’گاڑی ٹھہرانا مقصود ہوتو زنجیر کھینچئے
بلاوجہ زنجیر کھینچنے والے کو پچاس روپے جرمانہ ہوگا‘‘
بلواپنے حصہ کی چیز کھاکرپھر ’’امی.... ہیں ہیں ہیں‘‘ کی گردان کررہی ہے۔آپی میرے حصے کی چیز لے کر پھر مجھے دے رہی ہے ۔مگر میں اب دانستہ آپی کی بات نہیں سن رہا کیونکہ مجھے معلوم ہے اس کے بعد ہی میری نظر اس خوبصورت خاتو ن کی طرف اٹھ جائے گی جو بڑی دیر سے مجھے دیکھ رہی ہے اور پھر....اور پھر میں خوف سے اپنی آنکھیں بند کرلیتاہوں اور بند آنکھوں سے ہی پڑھنے لگتاہوں:
’’گاڑی ٹھہرانا مقصود ہوتو زنجیر کھینچئے
بلاوجہ زنجیر کھینچنے والے کو پچاس روپے جرمانہ ہوگا۔
‘‘
***

آپ بیتی

آپ بیتی

اپنی کچھ نیکیاں لکھنے کے لئے بھی حیدرؔ
اپنے  ناکردہ  گناہوں  سے  سیاہی   مانگوں

 
(۱)

اس دن ماں نے مجھے معمول کے مطابق فجر کے وقت جگایا تھا مگر اس کالہجہ معمول کے مطابق نہ تھا۔ میں نے تاروں کی روشنی میں ماں کی آنکھوں میں تشویش جھلکتی دیکھی۔ ماں مشرق کی طرف دیکھ رہی تھی جہاں گہری سرخی پھیلی ہوئی تھی۔ لگتا تھا آسمان پر شفق پھوٹنے کی بجائے خون پھوٹ بہاہے۔
اس دن سارا شہر خوفزدہ تھالوگوں کی نظریں اخبارات کی خبروں پر جم کر رہ گئیں۔
*ٹریفک کے حادثے میں بیس افراد ہلاک اور تیس شدید زخمی۔
*ملزمان پندرہ روز تک مجھے مسلسل بے آبرو کرتے رہے۔ برآمد کی جانے والی مغویہ کا بیان۔
*ایک نوجوان نے محبت میں ناکام ہو کر محبوبہ کو ہلاک کردیا۔
*سگے باپ، بھائی اور بھابھی کو قتل کردیا، خانگی جھگڑے کا شاخسانہ۔
ساری خبریں معمول کے مطابق تھیں مگر اس دن یہ ساری خبریں غیر معمولی لگ رہی تھیں۔ لگتا تھا ہر خبر کا آسمان کی سرخی سے کوئی تعلق بنتاہے۔
اس دن شہر میں بہت سی بھڑیں آگئی تھیں۔ پہلے شہر میں جس طرح مکھیاں بھنبھناتی تھیں اب ویسے ہی بھڑیں اڑتی پھرتی تھیں۔
ا س دن شدید گرمی کے باعث میں نے قمیص اتاررکھی تھی اور بنیان پہنے اپنی کرسی پر بیٹھااس دن کی ڈاک دیکھ رہاتھا۔ ڈاک میں دیگر خطوط کے ساتھ میری ایک بہت ہی اچھی دوست کا خط بھی تھا۔ جونہی میں اس کا خط پڑھنے لگا مجھے اپنے سینے پر شدید جلن محسوس ہوئی۔ایک بھڑ نے میرے سینے پر ڈنک مارا تھا۔ میں تکلیف کے عالم میں ماں کے پاس آیاتو اس نے لوہے کی کسی چیز کو ڈنک والی جگہ پر رگڑتے ہوئے دم کیا اور میری تکلیف بڑی حد تک دور ہوگئی پتہ نہیں اس دم کی وجہ سے یا ماں کی وجہ سے یا شاید دونوں کی وجہ سے!
اس دن شام کو غروب آفتاب کے بعد آسمان کی طرف پھر ویسی ہی گہری سرخی چھاگئی اور دن بھر کے پریشان لوگ اور زیادہ خوف زدہ ہوگئے ۔یہ سارے واقعات صرف اس دن ہی غیر معمولی لگے۔طلوع آفتاب سے پہلے اور غروب آفتاب کے بعد اب بھی آسمان گہرا سرخ ہوتا ہے۔ بھڑیں اب بھی شہر میں دندناتی پھرتی ہیں۔ قتل، اغوا، ایکسیڈنٹ اور آبرو ریزی کے واقعات اب بھی ہوتے ہیں مگر لوگ اب پہلے کی طرح پریشان نہیں ہوتے۔ انہوں نے آسمان کی سرخی کو بھی معمولات زندگی میں شمار کرلیاہے۔ لیکن میں دیکھتا ہوں کہ میری ماں کی آنکھوں میں ابھی تک تشویش جھلک رہی ہے۔ وہ اپنی تشویش سے آگاہ کرکے مجھے پریشان نہیں کرنا چاہتی لیکن میں نے راتوں کو دیکھا ہے کہ وہ کئی دفعہ اٹھ اٹھ کر، آسمانی صحیفوں کی دعائیں پڑھ پڑھ کر ،مجھے سوتا جان کر مجھ پر دم کرتی رہتی ہے۔ ایک دو دفعہ میں نے سناوہ میرے باپ سے آہستہ آواز میں اپنی تشویش کا اظہار کررہی تھی اور میرے باپ نے آسمان کی سرخی کو خدا کی ناراضگی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا تھا کہ دنیا پر عنقریب بہت بڑی تباہی آنے والی ہے۔ اپنی ماں اور باپ کی اس تشویش کو دیکھ کر مجھے بھی کبھی کبھی تشویش ہونے لگتی ہے۔
جب پہلے پہل لوگوں نے خوف کا اظہار کیاتھاتب و ہ بھی اس آسمانی تبدیلی کو اجتماعی زاویے سے دیکھ رہے تھے اور میرے ماں باپ بھی اسے کسی اجتماعی تباہی کا پیش خیمہ سمجھ رہے ہیں۔ لیکن ماں راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر مجھے کیوں دَم کرتی رہتی ہے؟ اس سوال نے مجھے اس سارے معاملے کو انفرادی زاویے سے دیکھنے کی تحریک کی ہے اور میں آسمان کی سرخی کو اپنی ذات کے حوالے سے سوچنے لگتا ہوں۔

(۲)
 
’’رات دو بجے....عقبی دروازہ.....ٹھیک!‘‘
میں اس بے ربط مگر معنی خیز تحریر کو پڑھتا ہوں اور اس خوبصورت لڑکی کا سراپا مجھے اپنے پورے وجود میں خوشبو بکھیرتا محسوس ہوتاہے جو ایک عرصے سے میرے دل و دماغ پر چھائی ہوئی ہے۔ میری ایک بہت ہی اچھی دوست نے مجھے کئی دفعہ اس خوبصورت لڑکی سے لاتعلقی کی نصیحت کی تھی۔ مگر میں نے ہمیشہ اس کی نصیحت کو نظرانداز کیا۔ اور آج جب اس خوبصورت لڑکی نے مجھے اپنے ہاں مدعو کیاہے تو میرے ذہن میں خودبخود گناہ کا تصوّر ابھرنے لگتاہے۔ ماں سے طبیعت کی خرابی کا بہانہ کرکے میں بیٹھک میں آکر بظاہر سوجاتاہوں۔
ا س وقت رات کے آٹھ بجے ہیں اور میں نے لیٹے ہی لیٹے دائیں طرف کروٹ بدل کر خیال ہی خیال میں اس خوبصورت لڑکی کو اپنے پہلو میں سلالیا ہے۔ میری سانسوں کی رفتار تیز ہوگئی ہے۔ اور عین اس وقت جب میں کلائمکس پر پہنچنے لگاہوں میں نے اس کا چہرا اپنے ہاتھوں میں تھام کر اس کے ہونٹوں کا بھرپور بوسہ لینا چاہا ہے.... مگر مجھے جیسے یکدم کرنٹ لگ گیاہے۔ میرے ہاتھوں میں جو چہرا ہے وہ ہو بہو میری بیٹی کا ہے۔ میری ننھی بچی.... جیسے ایک دم جوان ہو کر میرے ساتھ لیٹی ہو۔ میں خوف زدہ ہو کر بیٹھک سے نکل کر باہر سڑک پر آجاتا ہوں۔ اور کھلی ہوا میں لمبے لمبے سانس لینے لگتاہوں۔
کافی دیر بعد میں دوبارہ اندر آتاہوں۔نیند میری آنکھوں سے کوسوں دور ہے۔ میں پھر بستر پر لیٹ جاتاہوں مگر خوف کے باعث اب بائیں کروٹ لیٹتاہوں۔ لیٹتے ہی وہ خوبصورت لڑکی پھر میرے پہلو میں آگئی ہے اور.....اور.... نہ چاہتے ہوئے بھی میں پھر اس کے جسم کو اپنی بانہوں میں سمیٹ کر اپنے پورے وجود میں سمونے لگتاہوں۔ اپنے سارے عمل کے دوران میں شعوری طورپر کوشش کرتاہوں کہ اس کا چہرہ نہ دیکھوں۔ مگر ....اس نے اپنے ہاتھوں میں میرا چہرہ تھام لیاہے میں قدرے جھجکتے ہوئے اس کی طرف دیکھتا ہوں۔ یہ چہرہ میری بیوی کا ہے۔ خیر کوئی بات نہیں۔ میری بیوی ایک ماہ سے میکے گئی ہوئی ہے۔ اس کی عدم موجودگی کے باوجود اس کی موجودگی میں کوئی حرج نہیں۔ میں اس کے جسم کو اور بھینچ لیتاہوں۔ لیکن مجھے پھر کرنٹ لگتا ہے.... میں نے اپنے آپ کو دیکھا تو میری جگہ کوئی اور تھا۔
میں پھرخوفزدہ ہوکر سڑک پر نکل آتاہوں اور کھلی ہوا میں لمبے لمبے سانس لینے لگتا ہوں مجھے محسوس ہوتاہے کہ آسمان کی خونی سرخی دراصل میرے اس ہونے والے ریپ کی گواہ اور اس خوبصورت لڑکی کے بہنے والے خون کا ثبوت ہے۔ لیکن ہم دونوں میں اصل مجرم کون ہے؟
مری اس اچھی دوست نے ایک دفعہ جھلاکر مجھے کہا تھا’’آپ دونوں ایک دوسرے کے لئے مخلص نہیں ہیں صرف اپنے جذبات کی تسکین کے لئے ایک دوسرے سے فراڈکررہے ہیں‘‘..... لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ میں نے بڑے بڑے مخلص دوستوں کو بھی ذاتی مفاد کی خاطر انتہائی گھٹیا سطح پر اترتے دیکھا ہے خود میری اس اچھی دوست نے میرے ساتھ زبردست فراڈ کیاہے۔ ایسا فراڈ جو ابھی تک وہ خوبصورت لڑکی بھی میرے ساتھ نہیں کرسکی۔
**
عشق کے روایتی قصوں میں ایسے واقعات ضرور ملتے ہیں مگر رات کو کسی سے چوری چھپے ملنے جانا میری زندگی کا پہلا تجربہ ہے۔ گہری سیاہ رات میں پکڑے جانے کا کوئی خوف نہیں لیکن جب میں اس کے دروازے پر ہلکی سی دستک دینے لگتاہوں تو اچانک روشنی میں نہاجاتاہوں۔ مجھے لگتاہے سارا شہر میرے تعاقب میں نکل آیاہے اور میں رنگے ہاتھوں پکڑلیا گیاہوں۔ میں گھبراکرچاروں طرف دیکھتا ہوں۔ میرے چاروں طرف گھوراندھیرا ہے، پھر میں کس روشنی میں نہاگیاہوں؟ کہیں یہ مرے اندر کی روشنی تو نہیں؟.... مرے شجرے کی روشنی؟
دروازہ کھل گیاہے اور میں اپنے سوالوں کے جواب سوچے بغیر اندر داخل ہوگیاہوں۔ کمرے میں صرف ایک چارپائی اورایک کرسی پڑی ہے، لیکن ہم دونوں چارپائی پر ایک ساتھ بیٹھتے ہیں۔ اس نے اپنی کمر کابوجھ مرے اس بازو پر ڈال رکھاہے جو میں نے اس کی کمر میں حمائل کررکھاہے۔ گپ شپ کرتے ہوئے اچانک مجھے محسوس ہوتاہے کہ میری بیوی اور میری بیٹی دونوں میرے دائیں بائیں آن کھڑی ہیں۔ وہ دونوں مجھے میرے دونوں بازوؤں سے پکڑ لیتی ہیں، سامنے میری وہ اچھی دوست اپنا منہ دوسری طرف پھیرے کھڑی ہے۔ میں عین موقعہ پر پکڑ لئے جانے کی شرمندگی کے ساتھ باہر آنے لگتاہوں۔ وہ خوبصورت لڑکی مجھے حیرت سے دیکھتی ہے۔
واپس آکر میں ٹائم دیکھتاہوں۔ تین بج رہے ہیں۔ بستر پر لیٹتے ہی مجھے گہری نیند آجاتی ہے.....
ماں حسب معمول فجر کے وقت مجھے جگاتی ہے تو میں بمشکل آنکھیں کھول پاتا ہوں۔ ماں کے چہرے پرفکرمندی کے گہرے اثرات ہیں۔وہ بھرائی ہوئی آواز میں مجھے بتاتی ہے کہ آج آسمان پہلے سے بھی زیادہ سرخ ہے۔ میں کمرے سے باہر نکل کر آسمان کی طرف دیکھتا ہوں اور پھر حیرت سے ماں کا چہرہ تکنے لگتا ہوں۔
’’ماں!آج تو آسمان پر معمولی سرخی بھی نہیں ہے۔ بالکل صاف آسمان ہے‘‘
ماں مجھے تشویشناک نظروں سے دیکھتی ہے اور پھر غالباً مجھ پر دَم کرنے کے لئے کوئی آیت پڑھنے لگتی ہے....میں کمرے میں آکر بڑے آئینے کے سامنے اپنے بال درست کرنے لگتاہوں، بال درست کرتے ہوئے مجھے اپنی آنکھیں لال انگاروں کی طرح نظر آتی ہیں۔ مجھے لگتاہے آسمان کی ساری سرخی مری آنکھوں میں اتر آئی ہے۔ میں نے انفرادی زاویے سے آسمانی سرخی کا بھید پالیاہے.... ماں کمرے میں آکر مجھ پر پھونکیں مارتی ہے، مجھے لگتاہے وہ کہنا چاہتی ہے کہ مجھے تمہارے رات کے سارے عمل کا پتہ ہے لیکن پھر میرے شرمندہ ہونے کاخیال کرکے چپ چاپ لوٹ جاتی ہے۔ میں وضو کرنے کے لئے باہر آنے لگتاہوں تو ایک کتاب پر ایک بھڑ کو بیٹھا دیکھتاہوں.... ایک دوسری کتاب اٹھاکر میں نے اس بھڑپر دے ماری ہے اور اسے اس کے ڈنک سمیت ختم کردیاہے.... اس کے ساتھ ہی مجھے اپنی اس اچھی دوست کا خیال آجاتا ہے جس کی ایک زیادتی کے باعث میں اس سے ناراض ہوں۔
ممکن ہے وہ بھی اپنی زیادتی پر نادم ہو اور اس ندامت کا احساس آسمان کی ساری سرخی اس کی آنکھوں میں بھی بھردے.... ممکن ہے آج شام کو غروب آفتاب کے بعد مری طرح اسے بھی آسمان خون آلود نظرنہ آئے اور وہ بھی میری طرح انفرادی زاویے سے آسمان کی سرخی کا بھید جان لے.... اور ممکن ہے وہ بھی کسی بھڑ کو اس کے ڈنک سمیت ماردے۔
میں اس خوبصورت لڑکی کے بارے میں بھی کچھ سوچنا چاہتاہوں لیکن فی الحال میں طے کرتاہوں کہ آج ناشتے کے بعد تازہ اخبارکا مطالعہ نہیں کروں گا۔ قتل، اغوا، زنا، ایکسیڈنٹ کی خبریں تو روز کا معمول ہیں۔ آج میں ناشتے کے بعد اپنی اس اچھی دوست کا خط پڑھوں گا جس سے میں ناراض ہوں۔
وہی خط جسے پڑھتے وقت بھڑ نے میرے سینے پر ڈنک مارا تھا۔

***

ایک کافر کہانی

ایک کافر کہانی

صوفی، سادھو بن کر تیری کھوج میں ایسے نکلیں
خود  ہی   اپنا   رستہ،  منزل   اور   سفر  ہو  جائیں

بڑی عجیب اذیّت ہے۔ میں نماز پڑھتاہوں، رکوع تک تونماز ٹھیک رہتی ہے لیکن سجدے میں کہیں اور پہنچ جاتاہوں۔ اسٹین گن اٹھائے مکروہ تکونے چہرے اور نحوست برساتی آنکھوں والا ایک شخص میرے روبرو آجاتاہے۔ میں سجدے میں خدا کو ڈھونڈتاہوں۔وہ کہتا ہے:

’’میں تمہیں خدا تک نہیں پہنچنے دوں گا‘‘
میں سوچتاہوں شاید خدا بھی اس کے سامنے بے بس ہوگیاہے لیکن یہ کافرانہ خیال آتے ہی سجدے سے سر اٹھالیتا ہوں۔
مجھے ابراہیم ادھم رحمتہ اللہ علیہ کا واقعہ یاد آتاہے جب وہ ہر قدم پر سجدے کرتے ہوئے چودہ سال کی مسافت طے کرکے مکہ پہنچے تو کعبہ اپنے مقام پر موجود نہ تھا۔ تب غیب سے آواز آئی تھی۔
’’کعبہ ایک ضعیفہ کے استقبال کے لئے گیاہے جو ادھر آرہی ہے۔
آپ پکاراٹھے کہ وہ کون ہے؟.... اتنے میں دیکھا کہ رابعہ بصریؒ عصا ٹیکتی ہوئی آرہی ہیں۔ پھر کعبہ بھی اپنے اصلی مقام پر آگیا۔‘‘۱*
لیکن مجھے تو سجدے میں وہی مکروہ تکونے چہرے اور نحوست برساتی آنکھوں والا اسٹین گن اٹھائے نظر آتاہے، تنگ آکر میں جنگل کی طرف نکل جاتاہوں اور اپنے اندر ہی اندر سفر کرکے ایک بزرگ سے ملتاہوں اور انہیں اپنا روگ بتاتا ہوں۔ ان کے چہرے پر نورانی مسکراہٹ پھیل جاتی ہے وہ کہتے ہیں:
’’میں سو سال محراب میں رہا اور اپنے تئیں حیض والی عورت کی طرح جانتاتھا‘‘ ۲*
’’تو کیا میں بھی حیض کی کیفیت میں ہوں؟‘‘میرے سوال کے جواب میں بزرگ کے چہرے پر اثباتی مسکراہٹ پھیل گئی۔
اب میں ان سے تعارف حاصل کرنا چاہتاہوں۔ انہوں نے ’’سبحانی ما اعظم شانی‘‘۳* کہاتو میں چونک اٹھتاہوں۔ کہیں یہ بزرگ حضرت بایزید بسطامیؒ تو نہیں؟۔۔ میں ان سے سوال کرتاہوں۔
’’عرش کیاہے؟‘‘
فرمایا’’میں ہوں۔‘‘
’’لوح و قلم کیاہے؟‘‘
فرمایا’’میں ہوں۔‘‘
’’ابراہیم ،موسیٰ،محمد علیہم السلام اللہ تعالی کے بندے ہیں؟‘‘
فرمایا’’میں ہی ہوں‘‘
’’اللہ کے بندے جبرئیل ،میکائیل، اسرافیل علیہم السلام کے سے بھی ہیں؟‘‘
فرمایا’’میں ہوں‘‘
میں خاموش ہوجاتاہوں۔
تب فرمایا:
’’جو شخص حق میں محو ہوجاتاہے اور جو کچھ ہے حق ہے اگر ایسی صورت میں وہ سب کچھ ہو تو کوئی تعجب نہیں۔‘‘۴*
مجھے یقین ہوجاتاہے کہ یہ بزرگ حضرت بایزید بسطامی ہیں۔میں نے ان کے ہاتھوں کو چومااورکہا:
’’قیامت کے دن ساری خلقت محمّدیؐ جھنڈے تلے جمع ہوگی‘‘
فرمایا:’’محمد علیہ الصلوٰۃ والسلام اس سے زیادہ ہیں۔خلقت میرے جھنڈے تلے کھڑی ہوگی۔‘‘۵*
میں فرط عقیدت سے انہیں لپٹ جاتاہوں اور اپنی شفاعت کے لئے ان کی منّت کرتاہوں لیکن تب ہی یکایک وہ بھی غائب ہوگئے اور میں بھی غائب ہو گیا۔ اب پتہ نہیں میری جگہ کون ہے کیوں کہ یہ بہرحال میں نہیں ہوں۔ اب میں جو بھی ہوں ابھی تک یہی جاننے کی کوشش کررہاہوں کہ میں کون ہوں۔
یکایک دیکھتاہوں کہ:
’’میں ماسوائے اللہ سے زائد ہوگیا پھر جب میں نے اپنے آپ کو بلایاتو حق تعالیٰ سے آواز آئی میں نے خیال کیاکہ اب میں خلقت سے آگے بڑھ گیا ہوں ۔۔۔۔میں لبیک اللہم لبیک کہتے ہوئے محرم ہوگیاپھر تسبیح کرنے لگااور وحدا نیت میں جب طواف کرنے لگا تو بیت المعمور نے میری زیارت کی، کعبہ نے میری تسبیح پڑھی، ملائکہ نے میری تعریف کی۔ پھر ایک نور نمودار ہواجس میں حق تعالیٰ کا مقام تھا۔ جب اس مقام میں پہنچا تو میری ملکیت میں کوئی بھی چیز نہ رہی۔‘‘۶*
اور پھر میں یہ بھی دیکھتاہوں کہ:
’’کبھی تو میں اُس کا ابوالحسن ہوں اور کبھی وہ ابوالحسن ہے۔ یعنی جب میں فنا ہوتا ہوں تو میں وہ ہوتاہوں‘‘۔۷*
یکایک ایک مرقع پوش ہواسے اُترتاہے اور زمین پر پاؤں مارتے ہوئے کہتاہے:
’’میں جنیدِؒ وقت ہوں
میں شبلئ وقت ہوں
میں بایزیدِ ؒ وقت ہوں‘‘
میں بھی اٹھ کر رقص کرنے لگتاہوں
’’میں خدائے وقت ہوں
مصطفائے وقت ہوں‘‘۸*
بہت سے لوگ میرے گرد جمع ہوجاتے ہیں۔ یہ سب نجات کے طالب ہیں۔ میں انہیں کہتاہوں’’جاؤ فلاں قبرستان میں دفن ہوجاؤ تمہاری نجات ہوجائے گی۔‘‘
’’ایسا کیسے ہوسکتاہے؟‘‘
نجات کے ایک طالب نے پورے خلوص سے اپنے شک کااظہار کیاہے۔
’’تمہیں خبر نہیں کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے کہ بعض قبرستان ایسے ہوں گے کہ ان کے چاروں کونے پکڑ کر انہیں بغیر حساب کے بہشت میں ڈال دیں گے۔ ان میں سے ایک بقیع بھی ہے‘‘۹*
میراجواب سن کرشک کا اظہار کرنے والا کہتا ہے’’یہ کافرہے اسے سنگسار کردو۔‘‘
ایک اورکہتا ہے’’یہ بایزید بنتاہے۔‘‘
ایک اور بولتا ہے ’’ابوالحسن خراقانی بنتاہے۔‘‘
تب ان سارے نجات کے طالبوں نے اپنے ہاتھوں میں پتھراٹھائے تاکہ مجھے سنگسار کرکے نجات پالیں۔ میں نے پتھروں کے ڈھیر میں دبے ہوئے دیکھا: ’’میں بایزید اور اویس قرنی ایک ہی کفن میں تھے‘‘۱۰*
پھر میں اپنے اندر سے باہر نکلتاہوں اور اپنے آپ کو پہچانتاہوں اور ان مقدّس ہستیوں کے فیوض اپنے آپ میں محسوس کرتاہوں۔
لیکن جب نماز پڑھتے ہوئے سجدے میں جاتاہوں تو وہی مکروہ تکونے چہرے اورنحوست برساتی آنکھوں والا اسی طرح اسٹین گن لئے کھڑاہے اور اسٹین گن کی طاقت کے نشے میں کہتاہے۔
’’میں تمہیں خدا تک نہیں پہنچنے دونگا۔‘‘
میں اس کی احمقانہ بات پر دل ہی دل میں ہنستاہوں۔ خدا تو خود مجھ تک پہنچ گیا ہے۔لیکن پھر یہ مکروہ تکونے چہرے اور نحوست برساتی آنکھوں والا ابھی تک اسٹین گن کیوں اٹھائے کھڑا ہے؟
یہ سوال میں نے پتہ نہیں کس سے کیا ہے؟
اپنے آپ سے یاخداسے؟
مگر مجھے اپنے سوال کے حتمی اور عملی جواب کا انتظار ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔ماخذ۔۔۔
’’تذکرۃ الاولیاء ‘‘ تالیف حضرت شیخ فریدالدین عطاررحمۃ اللہ علیہ
اُردو ترجمہ مطبوعہ منزل نقشبندیہ لاہور ۔ ۱۹۲۵ ؁ء

***

روشنی کی بشارت

روشنی کی بشارت

بدل جاتے ہیں اک لمحے میں ہی تاریخ کے دھارے
کبھی   جو  موج  میں  آکر  قلندر  بول  اُٹھتے   ہیں

’’دیوانہ خاموش ہوگیااور اپنے سامعین کو دیکھنے لگا۔وہ بھی خاموش تھے اور حیرانی سے اسے دیکھ رہے تھے۔ بالآخر اس نے چراغ زمین پر پٹخ دیا جوریزے ریزے ہوکر بجھ گیا۔ تب اس نے کہا:

’’میں بہت پہلے آگیاہوں میرا تعلق مستقبل سے ہے۔یہ مہیب واقعہ ابھی فاصلے ہی طے کررہاہے‘‘
(نیطشے کی ایک تمثیل سے اقتباس)

اپنی آنکھوں میں طلوع ہوتے سورجوں کاگواہ، مٹی کا چراغ اپنے ہاتھوں پر اٹھائے جب میں شہر کے لوگوں کو روشنی کی بشارت دیتاہوں تو وہ مجھے اس انداز سے دیکھتے ہیں جیسے میں ان کے ساتھ مذاق کررہاہوں۔ کچھ لوگ میری بات پر ہنستے ہیں۔ کچھ سر اٹھاکر میری طرف دیکھتے ہیں اور بغیر سوچے سمجھے آگے چلے جاتے ہیں۔ کچھ سر اٹھاکر دیکھے بغیر کچھ سوچتے چلے جاتے ہیں۔

میری آنکھوں میں طلوع ہوتے سورجوں کا گواہ مٹی کا چراغ میرے ہاتھوں میں ہے۔ لیکن کوئی بھی میری بشارت پر ایمان نہیں لارہا۔مجھے شک گزرتاہے۔ میں اپنے وقت سے سولہ سوبرس پہلے آگیاہوں۔ یہ لوگ مجھ سے سولہ سو برس پیچھے ہیں۔ یہ میری بات نہیں سمجھ پائیں گے۔ پھر کچھ سوچ کر میں اپنی ماں کے پاس جاتاہوں اور روشنی کی بشارت دیتے ہوئے اسے بتاتاہوں کہ میری آنکھوں میں سورج طلوع ہورہے ہیں اور میرے ہاتھوں میں مٹی کایہ چراغ ان کا گواہ ہے۔ میری ماں مجھے تشویشناک نظروں سے دیکھتی ہے اور آسمانی صحیفوں کی دعائیں پڑھ پڑھ کر مجھ پر پھونکوں سے دَم کرنے لگتی ہے۔ میری چھوٹی بہن مجھے خوفزدہ نظروں سے دیکھتی ہے اور دبک کرماں کے قریب ہوجاتی ہے۔ ماں کی سادگی اور بہن کے بھولپن پر افسردہ مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے میں مبارکہ کے پاس آتاہوں اور اسے بتاتاہوں کہ میں دنیا کو روشنی کی بشارت دینے کے لئے مامورکیاگیاہوں۔ میری آنکھوں میں سورج طلوع ہورہے ہیں اور میرے ہاتھوں میں مٹی کا یہ چراغ ان کا گواہ ہے، مگر وہ میری بات پر توجہ دینے کی بجائے مجھے دوکانداروں کے بلوں اور بچوں کی فیسوں کے بارے میں بتانے لگتی ہے۔ میں مایوس ہوکرعفت کے پاس چلاآتاہوں۔ پہلے تو وہ میری بات پر توجہ نہیں کرتی لیکن جب میں پوری سنجیدگی سے اپنی بات دہراتے ہوئے اصرار کرتاہو ں کہ اب روشنی صرف میری آنکھوں میں طلوع ہوتے سورجوں سے ہی اترے گی۔ تو وہ میرے قریب آجاتی ہے۔۔میرے ہاتھوں میں مٹی کے چراغ کو چھو کر دیکھتی ہے اور پھر پوچھتی ہے۔۔ کہیں آپ افسانہ لکھنے کے موڈ میں تو نہیں ہیں؟۔۔ میں اسے یقین دلاتاہوں کہ میں جو کچھ کہہ رہاہوں سچ کہہ رہا ہوں۔ اس کے باوجودوہ مجھے اسی موضوع پر افسانہ لکھنے کی تحریک کرتی ہے۔
مجھے اب پوری طرح یقین ہوجاتاہے کہ میں اپنے وقت سے سولہ سو برس پہلے آگیاہوں۔ مجھے یادآتاہے اس سے پہلے ایک دفعہ میں اپنے وقت سے پچاس برس پہلے آیاتھا اور جب پچاس برس بعدمیں دوبارہ آیاتھا تو میں نے یہ دیکھا تھاکہ میں اپنے وقت سے ایک صدی پہلے آگیاہوں.... پھر جب میں ایک صدی بعد آیا تو میری آمد اپنے وقت سے دو سو سال پہلے تھی۔ اور جب میں دو سو سال بعد آیاتو میری آمد میں چار سوسال رہتے تھے اور پھر جب میں چار سو سال بعد آیاتو میں اپنے وقت سے آٹھ سو سال پہلے آیا ہوا تھا۔ اور اب جب میں آٹھ سو سال بعد آیاہوں تو مجھے یقین ہوگیاہے کہ میں اپنے وقت سے سولہ سو سال پہلے آگیاہوں۔
میں جو روشنی کی بشارت ہوں۔ ہر لحظہ اس دنیا سے دور ہورہاہوں وہ کون سی صفر مدّت ہے۔ جس میں یہ تمام صدیاں اور زمانے سمٹ آئیں گے اور میری آمد قبل از وقت نہ ہوگی۔ وہ صفر مدّت جب انسان نور کا انکار کرکے آگ کی بھینٹ نہیں چڑھے گا۔ مجھے اس مدّت کا انتظار کرناہوگا۔
اب جب میں سولہ سو برس کے بعد آؤں گا تو میری آمدمیں بتیس سو سال رہتے ہوں گے۔ اور جب میں بتیس سو سال بعد آؤں گا تو میری آمد میں چونسٹھ سو سال رہتے ہوں گے۔ اور اسی طرح کئی ہزار برس بیت جائیں گے۔ لیکن وہ صفر مدت کب آئے گی جب میرا آنابروقت ہوگا۔اور جب میری آنکھوں میں طلوع ہوتے سورج سوانیزے کی اَنی پر آجائیں گے۔ تب کوئی انکار کی جرأت نہ کرسکے گا۔ میں اپنے گزرے ہوئے اور آنے والے برسوں کا بوجھ اپنی روح پر اٹھائے پھر شہر میں آتاہوں۔ شہر کے سب سے بڑے بازار میں پہنچ کر میں اعلان کرتاہوں:
’’لوگو!تم نے میری بشارت پر ایمان نہ لاکر خود کو روشنی سے محروم کرلیاہے...‘‘
میراا علان مکمل ہونے سے پہلے ہی لوگ تمسخر شروع کردیتے ہیں۔ مختلف سمتوں سے گالیاں اور تضحیک آمیز فقرے میری طرف آرہے ہیں۔ میں کمال ضبط سے تمام تمسخرانہ اور تضحیک آمیز فقرے برداشت کرتاہوں۔ جب لوگ فقرے بازی سے خود ہی تھک جاتے ہیں تو میں اپنا پہلا اعلان ادھورا چھوڑ کر نیا اعلان کرتاہوں:
’’لوگو!تم نے روشنی کی تحقیر کی ہے۔ نورِبصیرت سے محروم لوگو! تم میں سے اب صرف وہی لوگ بچائے جائیں گے جو میرے گھر کی دیواروں کی اوٹ میں پناہ لیں گے۔ میں اپنے وقت سے سولہ سو برس پہلے آگیاہوں لیکن آگ تمہارا مقدر ہوچکی ہے۔‘‘
یہ کہہ کر میں اپنا چراغ شہر کے چوراہے پر توڑدیتاہوں اور خود تیزی سے اپنے گھر کی طرف چلاآتاہوں۔ لوگوں کے قہقہے گھر تک میرا تعاقب کرتے ہیں۔ لیکن میرے گھر پہنچنے تک وہ قہقہے چیخوں میں ڈھل جاتے ہیں۔ مٹی کے اس چراغ سے سارے شہر میں آگ لگ جاتی ہے۔
میں اپنے کمرے میں آکر بیٹھ جاتاہوں۔
سارے شہر میں آگ کے شعلے بھڑک رہے ہیں۔ اور لوگوں کی چیخیں ایک بھیانک شور میں تبدیل ہوگئی ہیں میری ماں حیرت سے کبھی میرے کمرے میں آکر مجھے دیکھتی ہے اور کبھی گھر کے صحن میں جاکر دھڑا دھڑ جلتے ہوئے شہر سے اٹھتے ہوئے شعلوں کو دیکھتی ہے۔ میری چھوٹی بہن اسی طرح خوفزدہ انداز میں ماں کے ساتھ ساتھ ہے۔ پھر وہ ماں کو کھینچ کر میرے کمرے میں بٹھالیتی ہے اور خودد بک کر ماں کے اور بھی قریب ہوجاتی ہے۔
مبارکہ اور عفت دونوں میرے کمرے میں آتی ہیں۔ دونوں کے چہروں سے حیرت جھلک رہی ہے۔ ایک گھمبیر خاموشی کے بعد مبارکہ ہمت کرکے بولتی ہے
’’باہر بہت سارے لوگ آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لئے آئے ہوئے ہیں‘‘
’’اب ان کاایمان لانایانہ لاناایک برابر ہے... جو لوگ دیواروں کی اوٹ میں ہیں انہیں ویسے بھی کوئی گزند نہیں پہنچے گی۔میں اب بیعت نہیں لے سکتا۔ میں اب سولہ سو برس کے بعد آؤں گا۔ پھر بتیس سو برس کے بعد پھر چونسٹھ سو برس کے بعد۔۔پھر۔۔‘‘
مبارکہ اور عفت کے چہروں سے عقیدت کے ساتھ دہشت بھی ٹپکنے لگتی ہے۔
میری چھوٹی بہن دبک کر ماں کے کچھ اور قریب ہوجاتی ہے۔
میری ماں اپنی خالی آنکھوں میں ان لمحوں کو اتارنے کی کوشش کررہی ہے جب اس نے مجھے جنم دیاتھااور میں اس صفر مدت کا انتظار کرنے لگتاہوں جب میری آنکھوں میں طلوع ہوتے سورج سوانیزے کی اَنی پر اتر آئیں گے۔ جب وہ اپنے گواہ آپ ہوں گے اور جب مٹی کا کوئی چراغ گواہی کے لئے نہیں لانا ہوگا
**
میری ماں اور چھوٹی بہن سامنے بینچ پر بیٹھی ہیں۔ مبارکہ میری نبض دیکھتے ہوے بتاتی ہے،
’’ابھی تھوڑی دیر پہلے عفت آپ کی عیادت کے لئے آئی تھی۔ مگر آپ سوئے ہوئے تھے۔ اب وہ پھر تھوڑی دیر بعدآئے گی۔‘‘
اور میں سوچنے لگتاہوں کہ میں کس صفر مدت کا انتظار کررہاہوں
***

مامتا

مامتا

یہ ساری روشنی حیدرؔ ہے ماں کے چہرے کی
کہاں ہے  شمس و قمرمیں جو نورخاک میں ہے

میں لان میں کھڑی جہاز کو پرواز کرتے دیکھ رہی ہوں۔ اس جہاز میں میری ممی گرمیاں گزارنے سوئٹزرلینڈ جارہی ہیں۔ڈیڈی انہیں سی آف کرنے ایئرپورٹ تک گئے ہوئے ہیں۔ زیبی اور روبی بھی ممی کے ساتھ گئی ہیں..... جہاز میری نظروں سے اوجھل ہوگیاہے اور میں آہستہ آہستہ کوٹھی کے اندر جانے لگتی ہوں۔

ڈرائینگ روم میں آکر میں صوفے پر ڈھیر ہوگئی ہوں۔
اچانک مجھے آئینے میں ایک خوبصورت سا جہاز پرواز کرتا نظر آتا ہے..... میں تھوڑا غور سے دیکھتی ہوں..... اف فوہ..... (حیرت ہے!) اس میں اس میں..... تو میری امی کی روح پرواز کررہی ہے۔
’’امی آپ نے توزندگی بھر ہوائی جہاز کا سفر نہیں کیاتھا، پھر موت کے بعد یہ جہاز کا سفر کیسا؟‘‘
میں امی سے پوچھتی ہوں مگر کوئی جواب نہیں ملتا۔
میں ڈرائینگ روم سے نکل کر ڈاڈر کے سینی ٹوریم میں پہنچ گئی ہوں۔
امی کو مختلف انجکشن لگائے جارہے ہیں۔ ہم سب بہن بھائی ان کے سرہانے کھڑے ہیں اور ڈیڈی۔ (نہیں ڈیڈی نہیں ابو..... ڈیڈی ممی کے ساتھ ہوتے ہیں اورابو،امی کے ساتھ.....)
ابو کے چہرے سے گہری تشویش جھلک رہی ہے۔ عجیب سے وسوسوں اور اندیشوں میں گھرا ابو کا چہرہ دیکھ کر میراجی چاہتا ہے کہ میں ان کے گلے سے لپٹ جاؤں۔ مگر میں نے تو آج تک منہ در منہ کبھی ابو سے کوئی فرمائش تک نہیں کی۔جو کچھ بھی مانگناہوتا امی کی معرفت مانگتی یا پھر چٹ لکھ کر مانگتی.....
پھر میں اتنی جرأت کیسے کرلوں..... میں نے گھبراکر ابو کے چہرے سے نظریں ہٹالی ہیں اورامی کی طرف دیکھنے لگی ہوں۔ امی کی بجھی بجھی آنکھوں سے میری آنکھیں چار ہوئی ہیں اور میری آنکھوں میں روشنی بھرگئی ہے۔
میں سینی ٹوریم سے واپس ڈرائینگ روم میں آگئی ہوں۔ آئینے میں اب وہ خوبصورت جہازنظر نہیں آرہا۔ ابو..... نہیں ڈیڈی..... ڈیڈی ائیرپورٹ سے واپس آگئے ہیں۔میں نے ریٹو کے ابو کو اپنے خیریت سے لاہور پہنچنے کا خط ابھی تک نہیں لکھا۔ اس لئے خط لکھنے بیٹھ گئی ہوں۔
سوئیٹزرلینڈ سے زیبی کا خط آیاہے۔ وہ بڑے مزے کی سیر کررہے ہیں ممی نے ڈھیروں پیار بھیجے ہیں۔ آج ڈیڈی بھی ایک ہفتہ کے لئے سوئیٹزرلینڈ جارہے ہیں۔ڈیڈی چلے گئے ہیں اور میرے ابو میرے پاس آگئے ہیں۔
’’چلو بیٹی تمہاری امی تمہارا انتظار کررہی ہوگی‘‘
۔۔۔۔۔ڈاڈر کی خوبصورت وادی اور اس میں بہتا ہوا دریائے سرّن کا صاف و شفاف پانی..... یہ منظر سوئٹزرلینڈ کی کسی بھی وادی سے کم نہیں۔ لیکن ابو ان تمام نظاروں سے لاتعلق میرے ہاتھ کو مضبوطی سے تھامے سینی ٹوریم کی طرف تیزی سے چل رہے ہیں۔ میں دو تین دفعہ ٹھوکر لگنے کی وجہ سے گرنے لگتی ہوں۔ مگر ابو نے میرا ہاتھ مضبوطی سے تھام رکھاہے اس لئے بچ جاتی ہوں..... ہم امی کے کمرے میں داخل ہوتے ہیں۔سارے بہن بھائی وہاں موجود ہیں صرف زیبی نہیں ہے۔
امی پوچھتی ہیں’’زیبی کہاں ہے؟‘‘
ابو خاموش کھڑے ہیں۔میں کہنا چاہتی ہوں کہ ’’سوئٹزرلینڈ گئی ہوئی ہے‘‘ مگر کہہ نہیں سکتی کیونکہ زیبی جو چھوٹی ہونے کی وجہ سے سب کے آخر میں کھڑی تھی بڑھ کر آگے آجاتی ہے۔
امی کے سرہانے پڑے ہوئے آکسیجن کے سلنڈر دیکھ کر مجھے اپنا دَم گھٹتا محسوس ہوتاہے۔
ابو کچھ دیر کے لئے ڈاکٹر کے ساتھ باہر جاتے ہیں اور میں پھر ڈیڈی کے ڈرائینگ روم میں واپس آگئی ہو۔ یہاں ریٹوکے ابو میرے منتظر ہیں۔
’’کہاں گئے سب گھر والے؟‘‘
’’ممی، زیبی اور روبی دو ماہ کے لئے اور ڈیڈی ایک ہفتہ کے لئے سوئٹزرلینڈ گئے ہیں‘‘
’’تمہیں کیوں نہیں ساتھ لے گئے؟‘‘ریٹو کے ابو کا لہجہ کچھ تیکھاسا ہوجاتاہے۔
’’ایک تو اس لئے کے لاہور سے سوئٹزرلینڈ، شیخوپورہ جتنی دور نہیں ہے۔ دوسرے اس لئے کہ گھر پر بھی تو کسی نے رہنا تھا‘‘
’’کیاتم سمجھتی ہو کہ تمہاری سگی ماں زندہ ہوتی اور تم اسے اس طرح ملنے آتیں تو وہ اگلے دن تمہیں گھر چھوڑکر کہیں سیر کو چلی جاتی؟‘‘
’’دیکھئے مجھے میری ممی کے خلاف نہ بھڑکائیے، وہ بہت اچھی ہیں۔ ہم سب کا بے حد خیال رکھتی ہیں۔ آپ ایسی باتیں کرکے میرے دل میں نفرت پیدا کرنا چاہتے ہیں‘‘
’’میں تو تمہارے بھلے کی بات کررہاہوں‘‘
’’مردہمیشہ عورت کو بہکاتاہے اور پھر اپنی ساری غلطیوں کی ذمہ داری بھی عورت پر ہی ڈال دیتاہے، اور عورت..... وہ اپنی سادگی کے باعث ہرناکردہ گناہ کو بھی اپنا گناہ تسلیم کرلیتی ہے۔ آدم اور حوا سے لے کر آج تک یہی ہورہاہے.....‘‘
قلم گرنے کی آواز سن کر میں چونک اٹھتی ہوں۔ گرے ہوئے قلم کو اٹھاکر پھر سے ریٹوکے ابو کے خط کا جواب لکھنے بیٹھ جاتی ہوں..... مگر یہ کاغذ پر اب تک کیا لکھتی رہی ہوں؟
ابو۔۔ابو۔۔امی۔۔ابو۔۔ڈیڈی۔۔امی۔۔ممی۔۔ڈیڈی۔
اپنی حماقت پر جھینپ کرپھر ریٹو کے ابو کو ان کے خط کا جواب لکھنے لگتی ہوں۔
ڈیڈی ایک ہفتہ سوئٹزرلینڈ گزارنے کے بعد واپس آگئے ہیں۔ آج میں نے فیصلہ کیاہے کہ ڈیڈی سے ہر حال میں یہ پوچھ کر رہوں گی کہ امی کی وفات کے بعد بھی آپ ایک عرصہ تک ابو ہی رہے پھر محض ممی سے شادی کے بعد آپ ڈیڈی کیوں بن گئے؟ آپ پھر سے ابو کیوں نہیں بن جاتے؟..... مگر میں جانتی ہوں کہ میں اتنی جرأت کے ساتھ تو کبھی ابو کے سامنے بھی نہ بول سکی تھی پھر ڈیڈی کے سامنے بولنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا..... شاید امی اس سوال کا جواب دے سکیں!
یہ سوچ کر میں پھر سینی ٹوریم کی طرف چل پڑی ہوں۔
ابو ابھی تک ڈاکٹر سے کوئی مشورہ کررہے ہیں۔
میں امی کے کمرے میں داخل ہوتی ہوں۔
امی اٹھ کر بیٹھ گئی ہیں۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ..... مہاتما بدھ کی تصویر میری آنکھوں کے سامنے گھوم گئی ہے۔ ہماری خاموش آنکھیں امی سے سوال کررہی ہیں۔
امی نے بھیا کے سرپر ہاتھ پھیراہے۔ بھیا کی آنکھوں میں آنسو ہیں..... اب رضیہ کے سرپر ہاتھ پھیر رہی ہیں وہ بھی اشکبار ہے۔ اب زیبی کو پیارکیا ہے ۔ مگر وہ حیران حیران سی، امی کو دیکھ رہی ہے۔ سب سے آخر میں امی نے مجھے بلایاہے۔ میرے سرپر ہاتھ پھیرتی ہیں تو میں ان کی دھنسی ہوئی آنکھوں میں آنسوؤں کے دو ننھے ننھے قطرے دیکھتی ہوں۔ راکھ کے ڈھیر میں چنگاریاں!
میں ’’امی جی‘‘ کہہ کر ان سے لپٹ جاتی ہوں۔ مجھے احساس ہوتاہے کہ راکھ کے اس ڈھیر میں کتنی حرارت موجود ہے۔ شاید یہ ممتا کی حرارت ہے!
ابو ڈاکٹر سے مشورہ کرکے آگئے ہیں.....
’’تمہاری امی ٹھیک ہوگئی ہیں اب ہم انہیں گھر لے جائیں گے‘‘
’’امی ٹھیک ہوگئی ہیں؟‘‘
’’امی ٹھیک ہوگئی ہیں؟‘‘
دنیا میں کتنی دفعہ معجزے ہوئے ہیں شاید اس دفعہ بھی کوئی معجزہ ہوجائے۔
ایک سپیشل ویگن آئی ہے۔ امی کو اس میں لٹایاگیاہے۔ میں نے اپنے زانوؤں پر امی کاسر رکھ لیا ہے۔ باقی سارے بہن بھائی بھی ویگن میں بیٹھ گئے ہیں۔ ویگن ڈاڈرکے پہاڑی علاقے کے نشیب و فراز سے گزررہی ہے۔ بلندیوں اور پستیوں کے کتنے چکر لگارہی ہے۔ ایک جگہ ویگن نے ہچکولاکھایاہے اور میری چیخیں نکلنے لگتی ہیں لیکن میں انہیں دباکر صرف سسک کر رہ گئی ہوں۔ معجزوں کی امید ختم ہوگئی ہے، میں امی کی ڈھلکی ہوئی گردن کو سیدھا کرتی ہوں۔
’’یہ تمہاری ممی نے تمہارے لئے کچھ تحفے بھجوائے ہیں‘‘ڈیڈی نے دو خوبصورت سے پیکٹ میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا ہے۔
ریٹو نیند سے بیدار ہوگیاہے میں اس کے لئے دودھ بنانے لگتی ہوں۔ اسے دودھ پلاکر پیکٹ کھولتی ہوں۔ایک پیکٹ میں میرے اور بچوں کے لئے بے حد قیمتی کپڑے ہیں دوسرے پیکٹ میں بچوں کے لئے کھلونے ہیں۔
’’ارے یہ جہاز!’’میں حیرت سے اس کھلونے کو دیکھتی ہوں..... یہ بالکل وہی ڈیزائن ہے جو مجھے آئینے میں نظر آیاتھا، جس میں میری امی کی روح پرواز کررہی تھی۔ میں پھر صوفے پر اسی زاویے سے جاکر بیٹھ گئی ہوں مگر آئینے میں کچھ بھی نظرنہیں آرہا۔ میں اٹھ کر آئینے کے روبرو کھڑی ہوگئی ہوں.....
لیکن یہ کیا.....آئینے میں میری بجائے میری امی کھڑی مسکرارہی ہیں۔ ٹی بی زدہ امی نہیں۔خوبصورت اور جوان سی۔۔۔۔ بیماریوں کے روگ پالنے سے پہلے والی امی۔ اس عمر کی امی جب میری عمر بمشکل چھ برس تھی.....
میں چاہتی ہوں پھر سے چھ برس کی بچی بن جاؤں پھر بچوں کی طرح شرارتیں کروں۔ مار کھاؤں، ضد کروں، جھڑکیاں سنوں..... ارے ہاں میں چھ برس کی ہی تو تھی جب میں نے قرآن مجید ختم کرلیاتھا۔امی کتنی خوش تھیں اُس دن!۔۔ سارے خاندان میں امی کاسر اونچا تھا کہ میری ننھی سی بچی نے اتنی چھوٹی عمر میں کلام پاک ختم کرلیاہے۔جس دن میری ’’آمین‘‘تھی امی مجھے باربار چومتی تھیں اور پتہ نہیں کیاکیا پڑھ کر پھونکتی تھیں کہ کسی کی نظر نہ لگ جائے۔
امی ابوکو’’باؤجی‘‘ کہاکرتی تھیں۔ میں نے بھی ایک بار ریٹو کے ابو کو ’’باؤجی‘‘ کہا تھا مگر اس کے ساتھ ہی میری آنکھوں سے آنسو نکل آئے تھے .. . . میرے سوچتے سوچتے کتنے برسوں کافاصلہ طے ہوگیاہے۔ آئینے میں اب امی کے خوبصورت اور جوان چہرے کی جگہ نحیف و لاغر چہرے نے لے لی ہے، مگر ٹی بی زدہ امی بھی مسکرارہی ہیں۔
’’امی آپ نے دکھ کے لمحوں کی ہر سانس میں ابو کا ساتھ دیا تھا پھر اب خوشی کے لمحوں میں کیوں منہ موڑ گئی ہیں؟‘‘
’’بیٹی!اسے مقدر کہتے ہیں‘‘امی بدستور مسکراتے ہوئے جواب دیتی ہیں۔
’’امی اگر اسے مقدر کہتے ہیں تو پھر ظلم کسے کہتے ہیں؟‘‘
’’مقدر کے آگے ہر کوئی بے بس ہوتاہے بیٹی!‘‘
’’میں ایسے ڈراؤنے مقدرکی آنکھیں پھوڑدوں گی‘‘میں چیخ اٹھتی ہوں اور اس کے ساتھ ہی بے دم ہوکر نیچے گرجاتی ہوں۔ امی آئینے سے نکل کر باہر آتی ہیں۔ اپنے ہاتھوں سے اٹھاکر مجھے مسہری پر لٹاتی ہیں اور پھر میری پیشانی پر بوسہ دے کر واپس چلی جاتی ہیں۔
میں مسہری پر لیٹے ہوئے کروٹ بدلتی ہوں۔ پیشانی پر ابھی تک امی کے بوسے کالمس جاگ رہاہے۔ سامنے ریٹو، ممی کے بھجوائے ہو ئے خوبصورت ہوائی جہاز والے کھلونے سے کھیل رہاہے۔ ساتھ والے کمرے سے میرے بڑے بچے روفی اور بڑی بچی نزہی کے کیرم کھیلنے کی آوازیں آرہی ہیں۔ ڈیڈی کمرے میں داخل ہوتے ہیں اور میں اٹھ کر بیٹھ جاتی ہوں۔ ڈیڈی کچھ دیرریٹو کے ابوکے مستقبل کے سلسلے میں باتیں کرتے ہیں اور پھر اپنے کمرے میں چلے جاتے ہیں۔امی کے بوسے کا لمس ابھی تک محسوس ہورہاہے، میں امی سے ملنے قبرستان پہنچ جاتی ہوں۔ امی کی قبر کے سرہانے کھڑے ہوکر ابو کو تلاش کرتی ہوں۔ وہ یقیناًیہیں کہیں مجاوربن کر بیٹھے ہوں گے۔شاید یہیں کہیں ہوں۔
میں زور سے پکارتی ہوں’’ابو.....ابو‘‘
دوسری طرف کھڑے پہاڑوں سے ٹکراکرمیری آواز گونجتی ہے’’ابو..... وو..... ابو.....‘‘
میں پھر پکارتی ہوں،
پہاڑوں سے ٹکراکر صداپھر گونجتی ہے۔
’’ابو مجھے تھام لومیں گرنے لگی ہوں‘‘
’’ابو مجھے تھام لو میں گرنے لگی ہوں.....ںں .....ںں‘‘
مجھے محسوس ہوتاہے کہ میں اب اپنے ابو کو نہیں پکاررہی بلکہ پہاڑوں سے سرٹکرارہی ہوں۔ میں پہاڑوں کو پاش پاش کردیناچاہتی ہوں،
’’ابو.....ابو.....‘‘
’’ابو.....ابو.....وو‘‘
میں چیختے چیختے بے دم ہوگئی ہوں۔ پہاڑوں سے ٹکراتے ٹکراتے ریزہ ریزہ ہوگئی ہوں۔میں ٹوٹ پھوٹ چکی ہوں۔ مگر پہاڑ اپنی جگہ قائم کھڑے ہیں۔
’’امی آپ ٹھیک کہتی ہیں۔ مقدر کے آگے ہر کوئی بے بس ہوتاہے۔ امی آپ ٹھیک کہتی ہیں.....امی..... امی..... امی ابو.....‘‘ میں بالکل بکھر کر رہ گئی ہوں۔
اچانک مجھے محسوس ہوتاہے کہ کوئی میرے ریزوں کو جمع کرکے مجھے جوڑرہاہے۔ اس نے مجھے پھر سے جوڑدیاہے۔ اب وہ مجھے اپنے مضبوط بازؤں پر اٹھائے قبرستان سے باہر نکل رہاہے۔مجھے محسوس ہوتاہے کہ میرے ’’ابو‘‘ آگئے ہیں۔ اور وہی مجھے اٹھاکرلے جارہے ہیں۔ میں آنکھیں کھول کردیکھتی ہوں ’’اف فوہ.....یہ تو ریٹوکے ابو ہیں‘‘
**
مجھے شدید بخارہوگیاہے۔ ڈیڈی کو ایک اہم میٹنگ میں شرکت کرناتھی اس لئے وہ جاچکے ہیں۔میں نیم بے ہوشی کے عالم میں پڑی ہوں۔ اسی عالم میں دیکھتی ہوں تو حیران رہ جاتی ہوں۔ میری ممی میرے سرہانے بیٹھی ہیں۔
ا نہوں نے اپنے زانوؤں پر میرا سررکھا ہوا ہے اور بڑے پیارسے مرا سر دبارہی ہیں۔ مجھے اپنے خیالات پر شدید ندامت محسوس ہوتی ہے۔ میں لفظوں کو جمع کر رہی ہوں:’’ممی.....آپ تو..... ممی..... اچھی سی.....‘‘ لیکن لفظ صحیح طورپر جمع ہی نہیں ہوپارہے۔ میرے چہرے پر دو گرم گرم آنسو گرتے ہیں(ممی رو بھی رہی ہیں) میں جذبات کو قابو میں رکھے ہوئے ہوں۔
میں اپنی آنکھیں نہیں کھولنا چاہتی۔ کیونکہ میں جانتی ہوں کہ میرے سرہانے تو میری ننھی بچی نزہی بیٹھی ہے۔پھر بھی میں لفظوں کو جمع کرنے کی کوشش کر رہی ہوں،
’’ممی.....میری اچھی ممی.....مجھے معاف کردیں
.....‘‘
***

اندھی روشنی

اندھی روشنی

کب تلک  چھائی  رہے  گی یونہی  اندھی  روشنی
کب تلک حیدرؔ رہیں گے ان اندھیروں کے عذاب

اندرداخل ہوتے ہی میری آنکھیں چندھیا کررہ گئی ہیں۔ ہر طرف روشنی کا سیلاب پھیلاہواہے۔ دیواروں پر بڑے بڑے آئینے نصب ہیں جو روشنی کے سیلاب کی شدت میں مزید اضافہ کررہے ہیں۔ میں نے عجیب سے خوفزدہ انداز میں اس کے ہاتھ کو مضبوطی سے پکڑلیاہے۔ مجھے محسوس ہوتاہے کہ میں اندھا ہوگیاہوں۔ جب بینائی کام نہ کرے تو اندھے پن کا احساس قدرتی بات ہے مگر میری تو آنکھیں بھی بالکل ٹھیک ہیں، ان کی بینائی بھی قائم ہے پھر مجھے اندھے پن کا احسا س کیوں ہورہاہے؟

وہ ایک میز پر کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی ہے اور مجھے بھی بیٹھنے کے لئے کہہ رہی ہے۔ مجھے اپنی کرسی بھی نظر آرہی ہے مگر اندھے پن کا احساس بھی بدستور موجودہے۔میں کرسی پر بیٹھ گیاہوں اور اب آنکھیں پھاڑپھاڑ کر چاروں طرف دیکھ رہا ہوں ہال میں اچانک موسیقی کا ایک شور سا اٹھاہے۔ عجیب بے ہنگم سی موسیقی ہے۔ سارا ہال ا س کی لے پر تھرک رہاہے۔
وہ میری طرف دیکھتی ہے اور پھر مجھے جیسے گھسیٹتے ہوئے ہال کے وسط میں لے آتی ہے۔یہاں اور بھی کئی جوڑے ناچ رہے ہیں اور اب میں بھی اس کے اشاروں پر ناچ رہاہوں۔ لیکن ’’میں‘‘ تو ابھی تک اُس کرسی پر گم سم بیٹھا ہوا ہوں بلکہ ’’میں‘‘ نے کرسی کے بازؤں کو اس طرح مضبوطی سے تھام رکھاہے جیسے انہیں چھوڑدیاتو ہوا میں اُڑجاؤں گایا کسی بھیڑ میں گم ہوجاؤں گا، غالباً میں اندھیروں کاباسی ہوں اور شاید اسی لئے روشنی کے اس سیلاب میں ڈبکیاں کھارہاہوں..... میرے حواس کھوگئے ہیں...... مجھے اپنا دَم گھٹتا محسوس ہورہا ہے..... اب کرسی بھی ہچکولے کھارہی ہے، جیسے اس نے بھی مجھے اس سیلاب میں ڈوبنے سے بچانے سے انکارکردیاہو۔ میرے چاروں طرف دائرے سے ناچ ر ہے ہیں۔
موسیقی کاشور بڑھ گیاہے۔
دائروں کے رقص کی رفتارتیز ہوگئی ہے۔روشنیوں کی چمک کچھ اور بڑھ گئی ہے اورمیرے اندھے پن میں کچھ اور اضافہ ہوگیاہے، مجھے یوں محسوس ہوتاہے کہ میں کسی تاریک غار میں دوڑتاجارہاہوں۔ ہزاروں آسیب میرے تعاقب میں ہیں، اچانک مجھے ٹھوکر سی لگتی ہے۔
’’دیکھواحتیاط کرو۔ میرا مذاق نہ بناؤ‘‘
اس کی آواز نے مجھے چونکادیاہے۔ میں غارسے نکل کر واپس ہال میں پہنچ گیاہوں اور اب پھر سنبھل کررقص میں اس کا ساتھ دینے کی کوشش کررہا ہوں لیکن ’’میں‘‘ تو ابھی تک اُس کرسی پر بیٹھا ہواہوں۔ پھر اس کے ساتھ رقص کون کررہاہے؟ رقص بھی میں ہی کررہاہوں۔
پھر میں کہاں ہوں؟
میں رقص کررہاہوں یا کرسی پر بیٹھا ہوں؟
کرسی پر بیٹھا ہوا’’میں‘‘کھڑا ہوگیاہے۔وہ مجھے بلارہاہے۔
’’واپس لوٹ آؤ۔۔۔۔شجرممنوعہ کی داستان نہ دہراؤ۔ واپس لوٹ آؤ۔ جنت سے نکل کر تو زمین پر آ گئے تھے۔ زمین سے نکال دیئے گئے تو کوئی ٹھکانہ نہیں ملے گا..... اس حوّاکو چھوڑ دو.....واپس لوٹ آؤ‘‘
’’میں‘‘پھر کرسی پر بیٹھ گیاہے۔
میں بے اختیارکرسی پر بیٹھے ہوئے ’’میں‘‘ کی طرف بڑھتاہوں۔ کرسی پر بیٹھا ہوا’’میں‘‘ پھر کھڑاہوگیاہے۔ ہم دونوں بغل گیر ہوتے ہیں اور وہ میرے اندر چھپ جاتاہے موسیقی کا بے ہنگم شور جاری ہے۔ رقص بھی جاری ہے۔
’’وہ شاید کوئی دوسرا ساتھی ڈھونڈ چکی ہوگی ‘‘میں یہ سوچتے ہوئے اُدھر دیکھتا ہوں
مگر وہ تومیرے سامنے بیٹھی ہے۔
اس کے چہرے پر جھنجھلاہٹ اور بے بسی کے اثرات ہیں۔
’’میں تمہاری وجہ سے جنت بدرہواتھا مگر اب میں تمہاری وجہ سے زمین بدر نہیں ہوسکتا‘‘
’’میری وجہ سے.....؟‘‘اس کی آنکھوں میں حیرت ہے
’’تم شجر ممنوعہ تک لے جانے کی ذمہ دار ہو اور شجر ممنوعہ جنت سے نکلوانے کا ذمہ دار ہے‘‘
’’شجر ممنوعہ.....!گندم.....؟‘‘
’’گندم.....شاید.....!‘‘
’’کیا گندم اشجار پر اُگتاہے؟‘‘
’’نہ میں عربی زبان جانتاہوں نہ کسی تفسیری جھگڑے میں پڑنا چاہتا ہوں ۔جنت میں اشجار پر ہی اُگتا ہوگا‘‘
’’تم روشنی سے خوفزدہ ہو‘‘ اس کا لہجہ خاصا تلخ ہوگیاہے،
’’پہلے بھی تمہارے ایسے ہی طعنوں نے مجھ سے گناہ کرایاتھا‘‘
گندم میں نے نہیں کھلایا تھا‘‘وہ چیخ پڑتی ہے،
’’میں پھر کہتاہوں کہ میں جھگڑنانہیں چاہتا‘‘
’’تم نے گندم کی تہمت میرے سر کیوں لگائی؟‘‘
’’میں دوبارہ فریب میں نہیں آناچاہتا‘‘
’’فریب!.....مرد عورت کے بغیر نہیں رہ سکتا.....‘‘ اس کے لہجے میں بلا کا طنز ہے.....‘‘ اپنی عیاشی کا سامان بھی پورا کرتاہے اور اپنی ساری غلطیوں کا بار بھی عورت ہی پر ڈالتارہتاہے‘‘
’’لیکن گندم.....‘‘
’’سنو!‘‘.....وہ چلّاتے ہوئے بولتی ہے’’گندم کی ہیَت پر غور کرو اور اپنی اس کمزوری پر بھی غور کرو جس کے بغیر تم نہیں رہ سکتے۔ بڑے بڑے تجردپسند بھی جس کے لئے بالآخر مجبور ہوگئے‘‘
’’تم فحش اور ننگی باتیں کررہی ہو‘‘
’’سچ کا کوئی لباس نہیں ہوتااسی لئے ننگا نظر آرہاہے‘‘
اس کا لہجہ بے حد زہریلا ہے اور میں ایک بار پھر اندھے پن کے احساس میں کھوگیاہوں۔
’’اندھیروں کے باسی تم اب بولتے کیوں نہیں‘‘
اچانک ساری روشنیاں گل ہوگئی ہیں اور مجھے یوں محسوس ہوتاہے جیسے میرا اندھاپن ختم ہوگیاہے، وہ گھبراکرمیرے قریب ہوجاتی ہے۔
’’تم جس مصنوعی روشنی کی باسی ہو اس کا طلسم ٹوٹ جائے تو پھر دیکھ لو کیا ہوتاہے‘‘
میں اس سے یہ کہنا چاہتاہوں لیکن کہہ نہیں سکتا کیونکہ روشنیاں پھر آگئی ہیں۔ میرا اندھاپن بھی آگیاہے۔
اب ہماری میز پر ایک اجنبی بھی موجود ہے اجنبیت کے باوجود ہمیں اس میں اپنائیت کااحساس ہوتاہے۔ ’’شاید میں آپ لوگوں کی بحث کو کسی حتمی نتیجے تک پہنچاسکوں!‘‘ اجنبی پر خلوص لہجہ میں کہتاہے۔
’’ہماری بحث کاموضوع جنت بدر ہونے کا سبب یعنی گندم ہے‘‘ میں وضاحت کرتاہوں۔
’’کیا واقعی تمہیں جنت بدر کرنے کا سبب گندم ہی ہے؟‘‘
’’مجھے یادتو کچھ ایسے ہی پڑتاہے ‘‘میں ذہن پر زور دیتے ہوئے بتاتاہوں۔
’’مولوی صاحبان بھی یہی بتاتے ہیں‘‘وہ میرے موقف کی تائید کرتی ہے۔
’’مجھے شک پڑتا ہے آپ نے گندم کی بجائے اس کا بھوسہ کھالیاہوگا‘‘
اجنبی کی اس بات پر ہم احمقوں کی طرح ہنستے ہیں۔
’’ذہن پر زوردیجئے..... وہ گندم سرخ رنگ کا تو نہیں تھا؟‘‘ اجنبی سوال کرتاہے ..... پھر ایک بھرپور قہقہہ لگاتاہے اور خود بھی اس قہقہے میں گم ہوجاتاہے۔ ہم دونوں ہی جیسے نیند سے بیدارہوگئے ہیں۔’’سرخ گندم کا مطلب سمجھتی ہو؟‘‘
’’اوہ..... اب سمجھی..... اس کا اشارہ امریکی گندم کی طرف تھا‘‘
’’سالا کوئی کمیونسٹ معلوم ہوتاتھا‘‘
’’میں بھی یہی سوچ رہی ہوں‘‘
**

آج صبح کے اخبارات میں قوم کو یہ نوید سنائی گئی ہے کہ قحط کے خطرے کے پیش نظر ایک دوست ملک سے طویل مدت قرض کی بنیاد پر کئی ہزار ٹن گندم خریدنے کے ایک معاہدے پر دستخط ہوگئے ہیں۔

میرے اندرکا’’میں‘‘سورج نکلنے سے پہلے ہی مرگیاہے۔
**
میں پھر اپنی حواکو ملنے چلاگیاہوں۔پھر وہی رشنیاں ہیں.....وہی موسیقی ہے اور وہی رقص ہیں۔ میری وہ کرسی اب خالی پڑی ہے۔
یہ روشنیاں اب مجھے راس آگئی ہیں اور میرا اندھاپن ختم ہوگیاہے۔
اب میں اس کے اشاروں پر نہیں ناچ رہابلکہ اسے اپنے اشاروں پر نچارہا ہوں ..... لیکن یہ کیا.....؟
سامنے دیوار پرنصب آئینے میں میرے اندر کے’’میں‘‘ کی بے کفن لاش مجھے گھور رہی ہے۔
میں گھبراکرمنہ دوسری طرف پھیرلیتاہوں۔ لیکن ادھر بھی بڑا آئینہ نصب ہے اور اس میں بھی وہی منظر ہے میرے چاروں طرف میری لاشیں بکھری ہوئی ہیں اور میں سوچ رہاہوں:
’’کاش میرا وہ اندھاپن ہی لوٹ آئے‘‘
موسیقی کا شورکچھ اور بڑھ گیاہے۔
ہمارے رقص کی رفتار تیز ہوگئی ہے۔
لیکن ہمارے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی ہے۔ ہم بے زمین ہوگئے ہیں۔
صرف اپنی لاشوں پر کھڑے رقص کررہے ہیں۔
روشنیاں تیز ہوگئی ہیں۔
موسیقی کا شور مزید بڑھ گیاہے
اور رقص کی رفتار مزید تیز ہوگئی ہے۔
تیز.....تیز.....اور تیز
روشنیاں موسیقی اور رقص
بے زمین لوگوں کا اپنی لاشوں پر رقص
!
***

حوّا کی تلاش


حوّا کی تلاش

مِرے   بدن    پہ   ترے   وصل   کے    گلاب    لگے
یہ میری آنکھوں میں کس رُت میں کیسے خواب لگے

مجھے یقین نہیں آرہا۔

میں عالم برزخ میں ہوں،
عالم خواب میں ہوں،
یا عالم حقیقت میں ہوں؟
’’غالباً میں عالم حقیقت میں ہوں‘‘ کسی وہم کی طرح مجھے یقین ہوجاتاہے اور میں اٹھ کر بیٹھ جاتاہوں۔ تھوڑی دیر بیٹھا رہتاہوں پھر اٹھ کر کھڑاہوجاتاہوں۔
میرا مستقبل میرے داہنے ہاتھ پر اور میرا ماضی میرے بائیں ہاتھ پر ہمیشہ رقم رہتاتھااور میں اپنے ماضی اور مستقبل کی تحریروں کو پڑھتے ہوئے ہمیشہ حال میں رواں رہتاتھا۔ مگر اب میں نے اپنے دائیں ہاتھ کی تحریر پڑھنا چاہی تو مجھے وہاں چاروں طرف دھند چھائی ہوئی نظر آئی۔ میں نے اپنے بائیں ہاتھ کی تحریر پڑھنا چاہی تووہاں دھواں دھواں فضاؤں کے سوا کچھ نظر نہ آیا۔ بے چارگی کے احساس کے ساتھ میں نے اپنے حال کی طرف دیکھنا چاہا تو مستقبل کی ساری دھند میری آنکھوں میں اُترآئی اور ماضی کا سارا دھواں میرے چاروں طرف رقص کرنے لگا۔ اس عذاب ناک حالت میں مجھے بچپن کی وہ دعائیں بھی بھول گئیں جو میری ماں نے مجھے یاد کرائی تھیں۔ لیکن میں مایوس نہیں ہوا۔ آخر دھوئیں کا رقص دھواں ہونے لگا۔ روشنی کی ایک لکیر ابھری اور ابھرتی چلی گئی،
’’الم ترکیف فعل ربک با اصحاب الفیل‘‘
دھند میری آنکھوں سے چھٹنے لگی اور دھواں دور ہٹنے لگا۔ مجھے اصحاب فیل کا انجام یاد آیاجو کھائے ہوئے بھوسے کی مانند ہوگئے تھے۔ میں نے اپنے سامنے بکھرے ہوئے ایٹم بم کاشکار ہونے والے منظر کو دیکھا اور مجھے اصحاب فیل کی خوش قسمتی پر رشک آنے لگاجو صرف کھائے ہوئے بھوسے کی مانند کر دیئے گئے تھے۔
عالمگیر ایٹمی جنگ ہوچکی ہے اور میں پتہ نہیں کیسے زندہ بچ گیاہوں۔ میرے چاروں طرف اس بھیانک جنگ کے اندھیرے پھیلے ہوئے ہیں۔ مجھے ان اندھیروں سے نکلنے کے لئے روشنی درکارہے۔ اور تب ہی جس قوت نے مجھے اس جنگ میں بھی زندہ رکھاتھا۔ مجھے روشنی عطاکرنی شروع کردی۔ روشنی کی جو لکیر پہلے ابھری تھی وہ اب ایک روشن ہالے کی شکل اختیارکرگئی ہے اور مجھ پر کرن کرن اتر رہی ہے،
’’تجھے کیا معلوم ہے کہ حطم(ایٹم)کیاشے ہے؟ یہ اللہ کی خوب بھڑکائی ہوئی آگ ہے جو دلوں کے اندر تک جاپہنچے گی تاکہ اس کی گرمی ان کو اور بھی زیادہ تکلیف دہ محسوس ہو‘‘
’’دنیاپر ایک شدید مصیبت آنے والی ہے اور تجھے کیا معلوم ہے کہ وہ مصیبت کیسی ہے؟ اور ہم پھر کہتے ہیں کہ اے مخاطب! تجھے کیامعلوم ہے کہ یہ عظیم الشان مصیبت کیاچیز ہے؟ یہ مصیبت جب آئے گی تو اس وقت لوگ پراگندہ پروانوں کی طرح ہوں گے اور پہاڑ اس پشم کی مانند ہوجائیں گے جو دھنکی ہوتی ہے۔‘‘
’’جب زمین کو پوری طرح ہلادیاجائے گا۔اور زمین اپنے بوجھ نکال کرپھینک دے گی اور انسان کہہ اٹھے گاکہ اسے کیاہوگیاہے؟‘‘
مجھے یادآتاہے کہ میں ایک پہاڑی علاقہ میں ٹھہراہواتھا جب ایٹمی جنگ چشم زدن میں چھڑ گئی تھی مگر اب کہیں بھی کوئی پہاڑ نظر نہیں آرہا۔ میں خود ہی حیرت سے پکاراٹھتا ہوں‘‘ یہ کیا ہوگیاہے؟‘‘ اور قرآن کی صداقت کاایک گواہ بن جاتاہوں۔
مجھے یاد آتاہے۔دو بڑی قوتیں ساری دنیاپرپھیل رہی تھیں۔ ان میں مشرقی قوت کا جال زیادہ پھیلاہواتھالیکن مغربی قوت بھی کم نہ تھی۔ عجیب عجیب نعرے تھے۔ عجیب عجیب نظریات تھے۔دونوں ہی انسانیت کی فلاح کی باتیں کرتے تھے اور اب دونوں ہی انسانیت کی تباہی کا موجب ہوگئے تھے جنگ کی ابتدا مشرقی وسطیٰ سے ہوئی تھی۔ وہاں کی تیل کی دولت۔ جسے دونوں بڑی قوتیں للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتی تھیں۔ پھر کیاہوا؟۔۔ مجھے واقعات کا علم نہیں۔ لیکن روشنی کا جو ہالہ مجھ پر کرن کرن اتر رہاہے وہ مجھے بتانے لگتاہے۔ اس کا اپنا انداز بیان ہے۔
’’خداوند کہتاہے کہ میں نے اپنی غیرت سے اور قہر کی آتش سے کہا یقینااسی دن اسرائیل کی سرزمین میں ایک زلزلہ ہوگا۔ یہاں تک کہ سمندر کی مچھلیاں اور آسمان کے پرندے اور زمین کے چرندے اورسارے کیڑے مکوڑے جو زمین پر رینگتے پھرتے ہیں اور سارے انسان جو روئے زمین پر ہیں میرے سامنے تھرتھراجائیں گے اور پہاڑ اٹھائے جائیں گے اور کڑاڑے بیٹھ جائیں گے اور ہر ایک دیوار زمین پر گر پڑے گی..... ایک شدت کا مینہ اور بڑے بڑے اولے اور آگ اور گندھک برساؤں گا۔ اسی طرح میں اپنی بزرگی اور تقدیس کراؤں گا اور بہتیری قوموں کی نظروں میں پہچاناجاؤں گا اور وہ جانیں گے کہ خداوند میں ہوں‘‘
’’دیکھ میں ترامخالف ہوں اے جوج روش اور مسک اور تو بال کے سردار! میں تجھے پلٹ دوں گا.. اور میں تجھے ہر قسم کے شکاری پرندوں اور میدان کے درندوں کو خوراک کے لئے دوں گا۔تو کھلے ہوئے میدان میں گرپڑے گا...... اور میں ماجوج پر اور ان پر جوجزیروں میں بے پروائی سے سکونت کرتے ہیں ایک آگ بھیجوں گا........ اور آگے کو میں ہونے نہ دوں گا کہ وہ میرے پاک نام کو بے حرمت کریں‘‘
’’اور دنیامیں ایک حشر برپاہوجائے گا اور وہ اول الحشر ہوگااور تمام بادشاہ آپس میں ایک دوسرے پر چڑھائی کریں گے اور ایسا کشت و خون ہوگاکہ زمین خون سے بھرجائے گی اور ہر ایک بادشاہ کی رعایابھی آپس میں خوفناک لڑائی لڑے گی۔ ایک عالمگیر تباہی آوے گی اور ان تمام واقعات کا مرکز ملک شام ہوگا‘‘
’’اے یورپ تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا۔ میں شہروں کو گرتے دیکھتاہوں اور آبادیوں کو ویران پاتاہوں‘‘
میں خدا کی بزرگی اور تقدیس کااقرار اور اپنے عجزکا اعتراف کرتاہوں۔ روشنی کی کرنیں میرے جسم پر تو اُتر رہی ہیں مگر روح تک نہیں پہنچ پاتیں۔ شاید اسی وجہ سے میں صرف اپنے ماضی کی تحریریں ہی پڑھ سکاہوں۔ مستقبل کی تحریروں کی یاتو زبان بدل گئی ہے یااُنہیں پڑھنے کی میری قوت سلب ہوگئی ہے
ایٹمی جنگ نے آدم کی نسل کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کردیاہے اور اب ابن آدم ہونے کے ناطے اس وقت مجھے اپنا سب سے پہلا فریضہ یہ معلوم ہوتاہے کہ جس طرح بھی ممکن ہو آدم کی نسل کو اس دھرتی پر قائم رکھاجائے۔ شاید میں اس نئے عہد کا آدم ہوں۔
مگر نئی حوا۔۔۔۔۔؟
میں خدا کی تسبیح و تحمید کرتے ہوئے نئی حوا کی تلاش کے سفر پر روانہ ہوتاہوں راستے میں تباہیوں کے کئی بھیانک منظر آتے ہیں۔ روشنی کا وہ ہالہ میرے ساتھ ہے اور اب بھی کرن کرن میرے جسم پر اتررہاہے۔ میرا نامعلوم اور اَن دیکھا سفر جاری ہے۔ ایک جگہ تو تباہی کا ایسا منظر آتاہے جیسے یہاں ایک دم بیسیوں ایٹم بم گرادیئے گئے ہوں میں خوف زدہ ہوجاتاہوں۔ اور اس منظر سے چھپنے کے لئے اپنی آنکھیں بند کرلیتاہوں۔
تب ہی روشنی کے ہالے کی کرنیں میری آنکھیں کھول دیتی ہیں،
’’کیا یہ زمین میں نہیں پھرے کہ دیکھتے کہ ان سے پہلوں کا کیاانجام ہوا؟وہ ملک میں ان سے تعداد اور طاقت میں بھی زیادہ تھے اورعمارت وغیرہ کے فنون میں بھی زیادہ ماہر تھے۔ لیکن ان کے اعمال نے ان کو کوئی نفع نہیں دیا تھا۔ اور جب ان کے پاس ان کے رسول نشانات لے کر آئے تو ان کے پاس جو تھوڑا بہت علم تھا اس پر فخر کرنے لگے اور جس عذاب کی ہنسی اُڑاتے تھے اسی نے ان کو گھیر لیا۔ پھر جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھاتو کہہ اٹھے ہم تو اللہ کو ایک قرار دیتے ہوئے اس پر ایمان لاتے ہیں اور اس کے ساتھ جن چیزوں کو ہم شریک قرار دیاکرتے تھے ان کا ہم انکار کرتے ہیں۔ پس جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا تو ان کے ایمان نے ان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا۔ یہی اللہ کی مقررہ سنّت ہے جو اس کے بندوں میں جاری چلی آتی ہے‘‘۔
میں تہیہ کرتاہوں کہ مجھ آدم سے جو نسل چلے گی اسے میں ان صحیفوں کی تعلیمات کے مطابق خود تربیت دوں گا اورمیری نسل شیطان کے چنگل میں دوبارہ اس طرح نہیں آئے گی کہ خدا کے عذاب کا شکار ہوجائے۔ نسل کی تربیت کے احساس کے ساتھ اپنے جیون ساتھی کی تلاش کا خیال پھر شدت سے ابھرتاہے۔
میرے لئے اب رات یا دن کی کوئی اہمیت نہیں اس لئے کہ روشنی کاہالہ اگر میرے ساتھ نہ ہوتو میرا دن بھی تاریک ہوجائے۔ جب بھی کہیں تھکن کااحساس ہوتاہے ٹھہرجاتاہوں، سستالیتاہوں۔ شاید نیند بھی کرلیتاہوں یا صرف اونگھ لیتاہوں۔ میں بدترین تباہی کے اس علاقہ سے تیزی سے نکلنے لگتاہوں پتہ نہیں ان دہشت ناک مناظر کے خوف سے یا جیون ساتھی کی تلاش کے خیال سے جو پہلے سے زیادہ شدید ہوگیاہے۔
جب میں اس علاقہ سے باہر آتاہوں تو مجھے پہلی دفعہ احساس ہوتاہے کہ میں نے کئی دنوں کی مسلسل مسافت کے باوجود کچھ کھایاپیابھی نہیں۔ بھوک کا احساس بیدا رہوجائے تو اسے سلانا مشکل ہوجاتاہے۔ بھوک کا احساس میرے جسم کے ساتھ ذہن اور روح پر بھی تھکن طاری کرنے لگتاہے۔
میں چل رہاہوں مگر مجھ سے چلانہیں جاتا۔ میرا وجود شل ہونے لگتاہے۔ میں اپنی بے بسی کے اقرار کے ساتھ خدا کی عظمت اور بزرگی کااقرار کرکے اس کی تسبیح اور تحمید کرتاہوں۔ تب ہی روشنی کے اس ہالے سے ایک کرن میرے جسم پر کسی تیر کی طرح اترتی ہے اور مجھ پر ہیبت طاری ہوجاتی ہے،
’’کیا انسان کو معلوم نہیں کہ ہم نے اس کو ایک حقیر قطرہ سے پیداکیاہے۔ پھر وہ سخت جھگڑالو بن جاتاہے اور ہماری ہستی کے متعلق باتیں بنانے لگ جاتاہے اور اپنی پیدائش کو بھول جاتاہے۔‘‘
میں خدا کے جلال کے آگے جھک جاتاہوں۔ لبوں سے یا دل سے کوئی دعانہیں نکلتی۔ آنکھوں میں آنسوؤں کی ایک جھڑی ہے جو تسبیح کے دانوں کی طرح ٹوٹ ٹو ٹ کر گر رہی ہے یہ آنسو اپنی بے بسی اور خدا کی عظمت کا خاموش اقرار ہیں۔
میں کتنی دیر تک اسی کیفیت میں سر بسجود رہتاہوں جب دل کا بوجھ کسی حد تک اترجاتاہے تو سجدے سے سر اٹھاتاہوں۔ بھوک کی شدت میں بڑی حد تک کمی ہوگئی ہے اور تھکن کا احساس بھی ایک حد تک زائل ہوگیاہے۔ میں پھر اپنے سفر پر روانہ ہوتاہوں۔ چلتے چلتے مجھے دور کہیں ہریالی کا گمان ہوتاہے۔ میں بے ترتیب راستوں سے اس سمت چل پڑتاہوں۔
یہ تو کوئی خاصا زرخیز علاقہ ہے۔ دور دورتک ہرے بھرے کھیت ہیں اور کھیتوں کے ساتھ ہی ایک خوبصورت ساباغ بھی ہے۔ باغ بڑے جدید انداز میں آراستہ ہے۔ درمیان میں ایک خوبصورت فوارہ بھی لگاہواہے۔ اس خوبصورت باغ میں پہنچ کر تھکن تو دور ہوگئی مگر بھوک نے مزید شدت اختیارکرلی لیکن فوارے کے ٹھہرے ہوئے پانی میں مچھلیاں دیکھ کر میں ٹھٹھک گیاہوں۔
کھیتوں کے ہرے بھرے راستے سے لے کر اس باغ تک مجھے کوئی ذی روح نظر نہیں آیاتھا۔ذہن پر زور دیتاہوں تو یا دآتاہے راستے میں کچھ جانور مَرے پڑے تھے۔ مگر چونکہ میں اس سے زیادہ بھیانک تباہیوں سے گذر کرآیاتھا اس لئے میں نے ان کی طرف کوئی توجہ نہیں کی تھی۔ اب مجھے اندازہ ہوتاہے کہ اس علاقہ پر زہریلی گیس کے بم پھینکے گئے تھے۔ تمام ذی روح مرچکے ہیں اور ساری فصلیں اور پھل زہریلے ہوچکے ہیں۔
روشنی کا وہ ہالہ بدستور اپنی کرنیں میرے جسم پر اتاررہاہے۔ میں عجب گومگو کی حالت میں ہوں۔ بھوک اب اتنی شدت اختیارکرچکی ہے کہ مجھے لگتاہے اگر میں نے کچھ نہ کھایاتو موت سے نہیں بچ پاؤں گا مگرسارے پھل زہریلے ہوچکے ہیں
’’مرناہی ہے تو بھوکے پیٹ کیوں مراجائے‘‘ یہ سوچ کر بالآخر میں نے پھلوں کو توڑ توڑ کر کھانا شروع کردیاہے۔ مجھے کچھ ہوش نہیں میں کب تک پھل توڑکر کھاتارہاہوں۔ ہوش تب آیا جب میں فوارے کا زہریلاپانی پی کر باہر آیا۔
اب میں اطمینان سے اپنی موت کا منتظر ہوں۔ مگر مجھے تو حیرت انگیز طورپراپنے اندرتوانائی کا احساس ہونے لگتاہے۔ روشنی کا ہالہ اب کتنی ہی کرنیں میرے جسم پراتاررہاہے،
’’وہی ہے جو مایوسی کے بعد بارش اتارتاہے اور اپنی رحمت کو پھیلادیتاہے‘‘
’’اے نفس مطمئنہ !اپنے رب کی طرف لوٹ آ۔ اس حال میں کہ تو اسے پسند کرنے والا بھی ہے اور اس کا پسندیدہ بھی۔‘‘
میں ایک بارپھر خدا کے حضور سجدہ ریز ہوجاتاہوں۔ مجھے معلوم ہوتاہے کہ میں جہاں سے بچایاگیاہوں وہاں کے تابکاری اثرات میرے اندر کچھ اس طرح سرایت کرچکے ہیں کہ وہ میری ہلاکت کی بجائے ا س زہریلی گیس کی ہلاکت کاباعث بن گئے ہیں جو اس وقت موجود پھلوں اور پانی میں ہے۔ گویا وہ تابکاری اثرات اس طرح میری بقا کی ضمانت بن گئے ہیں۔ غالباً اسی لئے میں کتنے ہی متعفن مقامات سے گزرنے کے باوجود بیمار بھی نہیں ہوا اور یہ جو اتنی قوت مجھ میں آگئی ہے کہ میں سینکڑوں میلوں کی مسافت طے کرکے یہاں تک آپہنچاہوں یہ بھی ان اثرات کے سبب سے ہی ہے۔ ’’پس تم اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس کا انکار کروگے۔‘‘
میں اپنی خوراک کے مسئلے سے اب بالکل مطمئن ہوجاتاہوں۔ مجھے اب ان دو بڑی مشرقی اور مغربی قوتوں کے انجام کا خیال آتاہے۔ دونوں قومیں ہی فتنے میں ایک دوسرے سے بڑھ کر تھیں۔ روشنی کاہالہ میرے قریب آجاتاہے اور پھر کرن کرن میرے جسم پر اترنے لگتاہے۔
یکایک روشنی کاہالہ پورے کا پورا میرے جسم پراترآتاہے،
’’تم پر آگ کاایک شعلہ گرایاجائے گا اور تانبا بھی گرایاجائے گا پس تم دونوں ہرگز غالب نہیں آسکتے اب بتاؤ کہ تم دونوں اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس کا انکار کروگے۔‘‘
روشنی کا ہالہ پھر اپنے اصل فاصلے پر چلاجاتاہے اور پھر کرن کرن میرے جسم پر اترنے لگتاہے۔ میں دونوں بڑی قوتوں کی تباہی کا یقین کرلیتاہوں۔
جیون ساتھی کی جستجو کا خیال پھر مجھے مستعدکردیتاہے۔ اور میں نیا آدم ہونے کے ناطے بقائے نسل انسانی کے مقدس فرض کی خاطر ایک نئے عزم کے ساتھ چل پڑتاہوں۔
باغ والے اس گاؤں سے تھوڑے ہی فاصلے پر ایک شہر آبادملتاہے۔ ساری عمارتیں سلامت ہیں مگر شہر پر موت کی حکمرانی ہے۔ دوکانیں کھلی ہوئی ہیں مگر لوگ نیچے گرے ہوئے ہیں۔ کہیں دیواروں کے ساتھ لگے کھڑے ہیں بیشتر دوکاندار کاؤنٹر پر یوں سر رکھے ہوئے ہیں جیسے آرام کررہے ہوں۔
مجھے بچپن کی وہ کہانی یاد آتی ہے جس میں ایک شہزادہ ایک ایسے شہر میں داخل ہوتاہے جہاں ہر آدمی پتھر کابت بناہوتاہے۔ مجھے محسوس ہوتاہے میں بھی کوئی شہزادہ ہوں۔ مگر کہانی والے شہزادے کو اُس شہر کو زندہ کردینے میں اس لئے آسانی ہوتی ہے کہ وہ کسی جادوگر کے طلسم کے باعث ویسا ہواہوتاہے۔ جب کہ یہ شہر تو انسان کے اپنے ہی طلسم کا شکارہوگیاہے۔ زہریلی گیس کے بموں نے سارے شہر میں کوئی ذی روح نہیں چھوڑا۔
میں کسی تھکے ہارے، افسردہ شہزادے کی طرح ایک خوبصورت ڈیپارٹمنٹل سٹور میں داخل ہوتاہوں۔ مگر ایک دم گھبراکے پیچھے پلٹنے لگتاہوں۔ سامنے کوئی وحشت زدہ آدمی کھڑاہے۔ میں پیچھے ہٹتے ہوئے پھر رک جاتاہوں۔ سامنے تو بڑا سا قد آدم آئینہ نصب ہے۔
’’توکیا.....؟کیا....یہ....میں ہوں؟‘‘
میں خود کو پہچاننے سے انکارکردیتاہوں۔ مگر بالآخر مجھے تسلیم کرناپڑتاہے کہ یہ میں ہی ہوں۔ اپنی پہچان کو تسلیم کرتے ہی مجھے پہلی دفعہ اپنی برہنگی کااحساس ہوتاہے۔ اسی اثنا میں آئینے میں مجھے بالکل اپنے ہی جیسی ایک وحشت زدہ عورت نظرآتی ہے۔ میں تیزی سے پلٹتاہوں۔ اپنی تمام تر وحشت کے باوجود اس کا چہرہ بتارہاہے کہ وہ مغربی عورت ہے۔ اس کی آنکھوں میں تلاش اور تجسس ہے۔وہ مجھے حیرانی سے پہچاننے کی کوشش کر رہی ہے۔پتہ نہیں اپنے باپ کو تلاش کر رہی ہے، بھائی کو تلاش کررہی ہے یا بیٹے کو.... اس کی آنکھوں میں یکایک چمک پیداہوتی ہے۔ جیسے اس نے پہچان لیاہو۔اور پھر وہ دوڑ کر مجھ سے بُری طرح چمٹ کرسسکنا شروع کردیتی ہے۔ میں نہیں جانتااس نے مجھے باپ سمجھاہے۔ بھائی سمجھاہے۔ بیٹا سمجھاہے یاکوئی اور۔۔لیکن میں مطمئن ہوں کہ اب آدم کی نسل اس دھرتی سے ختم نہیں ہوگی۔
میرے ماضی اور مستقبل کی تحریریں میرے دائیں بائیں ادب کے ساتھ کھڑی ہیں۔ اورمیرا ’’برہنہ حال‘‘میرے برہنہ جسم سے چمٹامشرق اور مغرب کی نفرتوں کو اپنے آنسوؤں سے صاف کررہاہے۔
روشنی کا ہالہ ہم دونوں کے جسموں سے گزرکرہماری روحوں میں اترجاتاہے اور ہم دونوں کے اندر سے ایک خوبصورت آواز ابھرتی ہے،’’اب بتاؤ کہ تم دونوں اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس کا انکارکروگے۔
‘‘
***