Sonntag, 17. Juli 2011

چند تاثرات

چند تاثرات

        میرے افسانوں کے بارے میں مختلف ادبی احباب نے مضامین،تبصروں اور خطوط کے ذریعے جو رائے پیش کی،اس کا ایک مختصر سا انتخاب ذیل میں پیش کر رہا ہوں۔       ح۔ق


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر وزیر آغا۔لاہور:

"پتھر ہوتے وجود کا دکھ"بہت عمدہ افسانہ ہے۔ اگر آپ اسی رفتار اور انداز سے آگے بڑھتے رہے تو بہت جلد صف اول کے افسانہ نگاروں میں شمار ہونے لگیں گے"۔

پروفیسرجیلانی کامران۔لاہور:

حیدرقریشی نے ان افسانوں کے ذریعے کہانی کے کینوس کو وسیع کرتے ہوئے نئے امکانات کی طرف اشارا کیا ہے اور اس سچائی کو نمایاں کیا ہے کہ لمِٹ سچوایشن کے دوران انسان صرف کرب ہی کی نمائندگی نہیں کرتا اور نہ اس کا وجود ہی پاش پاش ہوتا ہے بلکہ اس کے نطق سے اس کی اپنی تاریخ گفتگو کرتی ہے۔ ہمارا افسانہ تاریخ کے اس مکالمے سے شاید اب تک غافل تھا۔ حیدرقریشی نے اپنے افسانوں کی راہ سے تاریخ کے اس مکالمے کو سننے کی سعی کی ہے۔

جوگندر پال۔دہلی:

حیدر قریشی اسی وسیع تر زندگی کی دریافت کے لئے اپنی کہانیاں تخلیقتا ہے۔ اپنے اس کھلے کھلے راستے کو طے کر کے اسے دوریا نزدیک کسی شیشے کے محل میں اقامت نہیں اختیار کرنا ہے، بلکہ راستوں سے راستوں تک پہنچنا ہے اور ہر راستے پر تباہ حال زندگی کی باز آباد کاری کئے جانے ہے۔ وہ لکھ لکھ کر گویا کچھ بیان نہیں کر رہا ہوتا ، بلکہ اپنے لکھے ہوئے کو کر رہا ہوتا ہے اور اسے ایسا کرتے ہوئے پا کر بے لوث انسانی رشتوں پر باور کر لینا غیر مناسب معلوم نہیں ہوتا ۔

ڈاکٹر رشید امجد۔اسلام آباد:

حیدر قریشی کے افسانوں کا اختصار ، جملہ کی گرفت، ہر جملے کا دوسرے جملے سے ایسے جڑا ہونا جیسے زنجیر کی کڑیاں ہوں،مترنم لفظوں کا انتخاب اور کہانی کی مجموعی بُنت میں ماورائی تخلیقی ذہن ، ان کی شاعر ذات کی دین ہے۔ حیدر قریشی کے دونوں افسانوی مجموعے ان کے فنکارانہ سفر کے دو مرحلے ہیں ان میں ایک فنی اور فکری ارتقاء ہے جو ان کی اگلی منزل کی نشاندہی کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اردو افسانے کے مجموعی سفر میں بھی یہ دونوں مجموعے اپنی اہمیت اور پہچان رکھتے ہیں۔

دیوندراِسر۔دہلی:

حیدر قریشی کی کہانیاں ایک نئی تخلیقی روایت کی شروعات ہیں جو واقعاتی تسلسل اور کہانی پن پر مبنی ہو کر سوال، شک اور فکر کی بنیاد پر کہانی کا شفاف شیشا گھر تعمیر کرتی ہیں۔ اس شیشا گھر میں ہم داخل ہونے کے لئے آزاد ہیں لیکن اس سے باہر نکلنے کے رستے بند ہیں، صرف ایک چھوٹا سا روشن دان کھلا ہے، ہمارے دل کا ---جس میں نہ جانے کہاں سے روشنی کی کرن چھٹک کر آرہی ہے جس کے ساتھ ساتھ چل کر ہم وقت کے اس نقطہ پر پہنچتے ہیں جہاں سچ ہمارا منتظر ہے۔
جہاں سچ سے ہم معانقہ کرتے ہیں!

ڈاکٹر قمر رئیس۔دہلی:

"کہانیاں علامتی ہیں لیکن معاصرجدید کہانیوں سے الگ اور انوکھی۔ یہاں تاریخ کنگناتی ہے۔ انسانی تہذیب سرگوشیاں کرتی ہے اور ان کی کوکھ سے آج کے جلتے ہوئے مسائل پھنکار مارتے نکلتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ پرکشش کہانیاں جو سوچنے پر اکساتی ہیں"۔

ڈاکٹر انور سدید۔لاہور:

"حیدرقریشی بظاہر ادب کی کئی اضاف میں ایک طویل عرصے سے بڑی پختہ کاری سے تخلیقی کام کر رہے ہیں تاہم ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ افسانے کے دیار میں قدم رکھتے ہیں تو فطرت اپنے اسرار کی گتھیاں ان پر بانداز دگر کھولتی ہے۔ "روشنی کی بشارت"ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ہے لیکن وہ نئے افسانہ نگار نہیں۔ ان کا شمار ساتویں دہے کے ان افسانہ نگاروں میں کرتا مناسب ہوگا جو تجریدیت سے معنی کا نیا مدار طلوع کرتے اور سوچ کو نئی کروٹ دیتے ہیں۔
"روشنی کی بشارت" کے افسانوں میں حیدرقریشی کرنوں کے تعاقب میں سرگرداں نظر آتا ہے لیکن جب اسے سدھارتھ کا معصوم چہرہ نظر آجاتا ہے تو اسے اطمینان ہو جاتا ہے کہ اس کل جگ میں زندہ رہنے کا جواز موجود ہے۔ ترقی پسند افسانہ نگاروں نے اپنے نظریاتی انسان کو کلیت کے دائرے میں محصور کر دیا تھا۔ حیدرقریشی نے اس دائرے کو توڑ کر اس منفرد انسان کو پیش کیا ہے جو اپنے خالق کا نائب ہے اور جس کا وجود پوری دنیا میں ہر جگہ موجود ہے۔ "دھند کا سفر" "حوا کی تلاش" "گلاب شہزادے کی کہانی" "مامتا" "اپنی تجرید کے کشف کا عذاب" جیسے افسانوں میں حیدر قریشی نے اندھیرے سے روشنی کی جہت میں سفر کیا ہے۔ بے اطمینانی سے اطمینان کی دولت تلاش کی ہے۔ خود غرض انسان کا سامنا کرتے کرتے جب اس نے بے لوث اور بے ریا انسان سے ملاقات کر لی تو اس کا دل شانت ہوگیا۔ "روشنی کی بشارت"کے افسانے ایک ایسے فنکار کی تخلیقات ہیں جس نے روح اور مادے کو متصادم دیکھا اور عرفان کی منزل خود تلاش کی"۔

ڈاکٹر ڈیرک لٹل ووڈ۔برمنگھم یونیورسٹی:


Haider Qureshi146s splendid collection of short stories extends the range of contemporary Urdu writing available in English translation. Qureshi is a philosophical story teller who ranges from the Ramayana to ecological fables and reflections on the experience of immigrant workers in Germany.His is a singular voice which deserves a wider audience. These stories are thoughtful and full of interest.
Dr. Derek Littlewood (Birmingham, ENGLAND.)

عبداللہ جاوید۔کینیڈا:
’عمر لا حاصل کا حاصل ‘میں درج شدہ سارے افسانے پڑھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ انہوں نے اردو افسانے کی مروجہ حدوں کو پار کرنے کی ہمت جٹائی ہے ۔ اس سے قبل ہمت، جسارت اور بغاوت کے القاب ان افسانہ نگاروں کے لیے استعمال کیے جاتے رہے ہیں جو روایتی موضوعِ ممنوعہ یعنی جنس کو اپناتے تھے۔ جنس کے بعد سیاسی اور مزاحمتی موضوعات کا معاملہ آتا ہے۔ حیدر قریشی ان موضوعات کے دلدادہ نکلے جو مجذوبوں کو ساجتے ہیں۔ وہ ایسے سوالات کے جوابات کے متلاشی معلوم ہوتے ہیں جو قریب قریب لا جواب ٹھہرائے جاتے رہے ہیں۔ یہ بڑا کام ہے اور شاید اسی سبب سے ان کے مختصر لیکن ’بڑے افسانے‘ قاری کا تعاقب کرتے رہتے ہیں۔ آخری سطر پڑھنے پر بھی جان نہیں چھوڑتے سوچنے پر مائل اور دہرانے پر مجبور کرتے ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ حیدر قریشی کا افسانہ پڑھنا ایسا ہی ہے جیسے ذاتی زندگی کے کسی تجربے سے گزرنا ۔ا یسے تجربے سے جو سوچ ، کشف اور بشارت سے عبارت ہے۔

 
ڈاکٹر فہیم اعظمی۔کراچی:
"حیدر قریشی الہامی قصص ، اساطیر ، ذاتی اور معاشرتی مسائل کو آپس میں مدغم کر کے ایک ایسا آئینہ تخلیق کرتے ہیں جس میں پیدائش سے موت تک زندگی کا عکس نظر آتا ہے۔ بیشتر کہانیوں میں میجر کردار خود کہانی کار کی ذات ہوتی ہے اور اس طرح حیدرقریشی فلسفیانہ ،مذہبی اور اخلاقی قدروں پر رائے بھی دیتے ہیں تو کسی غیر متعلق یا خارجی خیال آرائی کا احساس نہیں ہوتا اور سب کچھ کہانی کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔
حیدرقریشی کی کہانیاں زمینی زندگی کے معمولی واقعات سے شروع ہوتی ہیں جنہیں فلو بیر کے لفظوں میں SLICES OF LIFEکہا جا سکتا ہے مگر ان میں جلد ہی مذہبی، عقیدتی اور رحانی رنگ بکھرنے لگتا ہے اور ان کی اٹھان عمودی ہوجاتی ہے۔ پھر ان کہانیوں کی فضا زمین اور آسمان کے بہت بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ اکثر کہانیوں کا اسلوب داستانی معلوم ہوتا ہے لیکن لہجہ کا دھیما پن، علامتوں ، تمثیلوں اور تلازمے کا استعمال انہیں داستانی رنگ سے الگ بھی کرتا ہے۔کہیں کہیں مذہبی عقائد کا اظہار بھی ہوتا ہے مگر جمالیاتی طور پر ان میں نہ کوئی خطابیت پیدا ہوتی ہے اور نہ کسی آئیڈیل یا انفرنل دنیا میں داخل ہونے کی ترغیب ہوتی ہے۔ حیدر قریشی کی کہانیوں میں زبان اور حوالہ جات اس وقت، زمانے اور علاقے کی حدوں کا تاثر ضرور دیتے ہیں جب اور جہاں ان کی کہانیوں نے جنم لیا کیونکہ اس سے کسی تخلیق کار کو مفر نہیں، لیکن ان کہانیوں کا مجموعی سپکڑم زمان اور مکاں کی قید سے آزاد ہوتا ہے اور دنیا کے کسی بھی حصے کا قاری ان کہانیوں میں امکانی سچائی دیکھ سکتا ہے"۔

پروفیسرڈاکٹر حمید سہروردی۔گلبرگہ:

"حیدرقریشی کے افسانے پر یم چند اور یلدرم کے اسلوب و مزاج کی آمیزش اور آویزش سے اپنا ایک نیا افسانوں مزاج اور ڈکشن تیار کرتے ہیں۔ ان کا تجربہ ہم سب کا تجربہ بن جاتا ہے۔ ان کی بصیرت تیز اور روشن ہے اور وہ افسانے کی میڈیم سے روزمرہ زندگی کے انگنت تجربوں کو کچھ اس طرح سے گرفت کرتے ہیں کہ زبان و قلب سے بے ساختہ حیرت اورا ستعجاب کے کلمات ادا ہوتے ہیں۔ حیدر قریشی اپنے رنگ و مزاج کو اپنے ہر افسانے میں افسانوی زبان کے تخلیقی و اکتسابی امتزاج کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ ان کی خوبی نہ صرف ڈکشن میں ہے بلکہ موضوعات کے برتاؤ میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔
میں ذاتی طور پر حیدرقریشی کو جدید تر افسانوی میدان میں کامیاب و کامران سمجھتا ہوں۔ ان کا یہی انداز توازن و تناسب کے ساتھ برتا جائے تو وہ اپنی انفرادیت برقرار رکھیں گے اور وہ حضرات جو جدید اور جدید تر افسانے کے باب میں شاکی ہیں اطمینان حاصل کرلیں گے"۔

ڈاکٹر ذکاء الدین شایاں۔پیلی بھیت:

"روشنی کی بشارت" حیدرقریشی کے افسانوں کا وہ مجموعہ ہے جو آج کے نئے افسانے کے ان تمام الزامات کو رد کر تا ہے جن کے تحت جدید افسانے میں بے ربط منتشر اور مبہم احساسات کو ایسی شاعرانہ زبان میں پیش کرنے کا چلن ہوگیا ہے جو ہذیان گوئی سے قریب ہے۔ ہمیں ان افسانوں میں مصنف نے اس حقیقی روشنی کی بشارت دی ہے جو ہر عہد میں انسان کو سچا راستہ دکھاتی رہی ہے او ر جو آج بھی انسان کے ضمیر کا اجالا بن کر روشن ہے۔

قیصر تمکین۔انگلینڈ:

یورپ میں مقیم اردو قلم کاروں کی فہرست میں حیدر قریشی صاحب کا نام اب کسی تعارف کا محتاج نہیں رہ گیاہے۔ویسے تو انہوں نے مختلف اصناف ادب میں اپنی محنت و ریاضت سے ممتاز جگہ حاصل کی ہے لیکن افسانے کے میدان میں ان کی مساعی واقعی بہت قابلِ لحاظ ہیں بعض بالکل ہی منفرد خصوصیات کی وجہ سے عصری کہانی کاروں میں ان کا ایک بالکل ہی علاحدہ اور ناقابلِ انکار تشخص متعین ہوچکا ہے۔

مسعود منور۔ناروے:

"آپ کی کہانیوں سے مجھے کوئی بیتی خوشبو آئی ہے۔ ٹھہریئے میں اگر جلالوں----میں اگر جلا آیا ہوں اور خوشبو میں بھیگتے ہوئے یہ سطریں لکھ رہا ہوں۔ مجھے آپ کا کہانی بننے کا ڈھنگ نویکلا لگا ہے"۔

سعید شباب۔خانپور:

کافکا کی تقلید،تجریدیت اور بے معنویت کے مختلف تجربات سے گزرنے کے بعد آج جدید افسانے نے اپنی راہیں متعین کر لی ہیں۔جو افسانوی مجموعے جدید افسانے کی آبرو اور شناخت سمجھے جا سکتے ہیں ان میں ’’روشنی کی بشارت‘‘ بے حد اہم ہے اور مجھے یقین ہے کہ حیدرقریشی کے افسانے اپنے عصر کو عبور کرنے کے بعد زیادہ با معنی اور معتبر قرار پائیں گے۔

اکرم محمود۔امریکہ:

آپ کے پانچ افسانے پڑھے ہیں۔کیا بات ہے۔بتا نہیں سکتا کہ کیسا لطف آیا۔بلا مبالغہ بار بار ایسا محسوس ہوا کہ کسی کیفیت نے میرے پورے جسم کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے۔افسانہ ختم ہونے پر بھی یہ گرفت ختم نہیں ہوئی۔

جمیل الرحمن۔انگلینڈ:

(روشن نقطہ)اپنی نوعیت کا بہت خوبصورت اور حیدر قریشی صاحب کی مخصوص چھاپ لگا افسانہ ہے۔میرے محدود علم کے مطابق اس رنگ میں ابھی تک حیدر صاحب سے اچھا افسانہ کسی نے نہیں لکھا۔تصوف اور روحانی واردات کا حسین امتزاج۔

رشید ندیم۔کینیڈا:

تصوف کے بھیدوں سے بھرا ہوا یہ افسانہ(روشن نقطہ) حیدر قریشی صاحب نے بڑی فنکاری سے لکھا ہے۔ورنہ اتنا مختصر افسانہ اس قدر معلومات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔بہت سی مبارکباد!

کامران کاظمی۔اسلام آباد:

حیدر قریشی بلا شبہ اپنے عہد کا نباض افسانہ نگار ہے۔ جو تلخ سماجی حقیقتوں کے گھونٹ پیتا ہے اور پھر اپنے قاری کو کہانی سنانے بیٹھ جاتا ہے تو اس کی دلچسپیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے ان حقائق سے بھی آگاہ کردیتا ہے جن سے قاری بے خبر ہوتا ہے۔ حیدر قریشی کا کہانی کہنے کا انداز تیکھا مگر دلنشیں ہے وہ قاری کو حیرتوں میں گم کردیتے ہیں تو ساتھ ہی اسے نئی دنیاؤں کے راستے بھی سجھاتے ہیں۔ گویا ان کا فلسفہ عمل کا فلسفہ ہے۔ اور وہ سب سے پہلے انسانوں کے درمیان مذہب کی دیوار ،سماج کی دیوار اور طبقے کی دیوار گرا کر اسے اس بے گانگی سے نجات دلانا چاہتا ہے جس نے اس کی زندگی کی شہزادی کو سامری جادوگر کے جال میں پھنسا رکھا ہے۔ حیدر قریشی تمام انسانوں کو ایک شمار کرتے ہیں اور بلاشبہ انسان دوستی کے بہت بڑے پرچارک ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

افسانوں کے دو مجموعوں کے انتساب

 
اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے
 
روشنی کی بشارت

بے حد عجز و انکسار

تعظیم و تکریم اور
محبتوں کے ساتھ
کائنات کے سب سے قدیم اور سب سے عظیم تخلیق کار
اپنے پیارے خدا کے نام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پس کہانیاں کہتے رہو کہ لوگ کچھ تو سوچ بچار کریں
 
قصے کہانیاں

اپنے پردادا حضور

میاں میر محمد قریشی گڑھی اختیار خاں والے
اور اپنے دادا جی
میاں اﷲ رکھا قریشی کے نام
 
 
 

میں انتظار کرتا ہوں



میں انتظار کرتا ہوں

خزاں رسیدہ سہی پھر بھی میں اگر چاہوں

  جہاں  نگاہ   کروں    اک  نئی   بہار  اُگے


میں سوتیلے جذبوں کے عذابوں سے گزرتاہوں کہ مجھے اپنا سفر مکمل کرنا ہے۔

میں کسی صحرا میں پیاس کی شدّت سے ایڑیاں رگڑ رہاہوں۔
اور مامتا کی ماری میری ماں پانی کی تلاش میں ہلکان ہوتی پھر رہی ہے۔
میں کسی اندھے کنوئیں میں گراپڑا ہوں۔
اور میرے بھائی ان سوداگروں سے بھی میری قیمت وصول کررہے ہیں جو کچھ دیر بعد مجھے اس کنوئیں سے نکالیں گے اور غلام بناکرلے جائیں گے۔
میں کسی جنگل میں بَن باس کے دن گزار رہاہوں۔
مری بیوی مجھے ہرن کاشکار لانے کے لیے کہتی ہے۔ میں ہچکچاتا ہوں مجھے معلوم ہے اس کے بعد کیا ہوگا مگر پھر میں بیوی کی خواہش پوری کرنے کے لیے نکل کھڑا ہوتا ہوں۔

**
میں کہ سوتیلے جذبوں کاشکار ہوں۔
میری تاریخ کے سفر کا ایک حصہ مکمل ہوگیاہے ’’لچھمن ریکھا‘‘ عبور ہوتے ہی تاریخ کے سفر کا دوسرا حصہ شروع ہوگیاہے۔ میں کسی غیبی امداد کا منتظر ہوں۔
میں اندھے کنوئیں سے نکال لیاگیاہوں۔
مگر میں ابھی تک اندھے کنوئیں میں ہوں کہ زلیخامیرے تعاقب میں ہے اور میں گناہ کے اندھے کنوئیں سے نکلنے کے لئے مسلسل دوڑ رہاہوں۔
پیاس کی شدت میں مزید اضافہ ہوگیاہے۔
اور میری ماں جو دوڑتے دوڑتے تھک کر چُور ہوگئی ہے۔ ابھی تک پانی کی تلاش میں سرگرداں ہے اس کے اپنے ہونٹوں پر پیاس کی پپڑیاں جم گئی ہیں۔ مگر دور دور تک کسی قافلے کے آثار نظر نہیں آتے۔
میری بے گناہی۔۔ میری نیکیاں دنیا نہیں دیکھتی اور میں تہمتوں کی زد میں ہوں۔
میں اذیت میں ہوں کہ میری ماں ابھی تک میری خاطر پانی کی تلاش میں سرگرداں ہے۔
وہ جو بادشاہ زادی ہے۔ میرے سوتیلے بھائی اسے لونڈی اور مجھے لونڈی کا بیٹا کہتے ہیں۔
میں دکھ میں ہوں کہ حاکم کی بدکاربیوی مجھے میری نیکی کی کڑی سزا دلواتی ہے۔
میں قید میں ہوں کہ بدکاری کی تہمت مجھ پر عائد کردی گئی ہے۔
اور میراسینہ تنگ ہوتاہے کہ میری پاک دامن بیوی پر بدکاری کا الزام عائد کیاگیاہے۔
یہ سارے جھوٹے الزام اور تہمتیں وہی لگارہے ہیں جو خود بدکار ہیں۔ جو میرے سوتیلے عزیز ہیں۔ وہ میرے گردسوتیلے جذبوں سے جھوٹے الزامات اور تہمتوں کا ایندھن جمع کررہے ہیں تاکہ اس میں نفرتوں کی آگ لگاکر مجھے بھسم کرڈالیں۔
میں اس آگ سے بچنے کے لئے دعاکرتاہوں کہ میں بے حد کمزور ہوں۔

**
میں وہی ہوں کنواریاں جس کے لیے ہزاروں برس سے انتظار کررہی تھیں۔
اور میں وہی ہوں.....چاند، سورج اور ستارے جس کے آگے سجدہ ریز ہوں گے۔
اور میں وہی ہوں جو اپنے باپ کے تخت کاحقیقی وارث ہے۔
مگر میں سوتیلے جذبوں کا شکار ہوں۔
میں سوچتا ہوں۔
میں کن امتحانوں آزمائشوں اور ابتلاؤں سے گزررہاہوں؟
میری پاکدامن بیوی کی صفائی کون دے کہ میرا واسطہ بدکاروں سے ہے جو اپنی برائیاں چھپانے کے لئے دوسروں پر تہمتیں عائد کرتے ہیں۔
اور میری اپنی صفائی کون دے کہ میں اب بھی گناہ پر آمادہ ہوجاؤں تو وہی عورت میری بے گناہی کی گواہی دے کر مجھے چھڑالے جائے گی جس نے مجھے اس حال تک پہنچایاہے۔
اورمیری ماں....بادشاہ زادی.... جو میری حالت نہیں دیکھ سکتی اور اس کی بے قراری دیکھ کر میرا اپنا دِل خون ہوتاہے اور میں پہلے سے زیادہ زور کے ساتھ ایڑیاں رگڑنے لگتا ہوں، وہ کب تک پانی کی تلاش میں پہاڑیوں کا سفر کرتی رہے گی۔

**
سوتیلے جذبوں سے جھوٹے الزامات اور تہمتوں کا ایندھن میرے چاروں طرف جمع کیاجاچکاہے اس ایندھن کے انبار پہاڑوں کی بلندیوں تک پہنچتے ہیں۔
وہ صحرا جس میں،میں ابھی تک پیاس کی شدت سے ایڑیاں رگڑ رہا ہوں اور میری ماں پانی کی تلاش میں چکراتی پھر رہی ہے،
اور وہ اندھا کنواں جس میں مجھے ڈالاگیاتھا اور وہ جیل جس میں ،میں اس وقت قید ہوں،
اور وہ جنگل جس میں مجھے اپنے بن باس کے سارے دن گزارنے ہیں،سب اس ایندھن کے حصار میں آگئے ہیں۔ ایندھن کے اس حصار کی دوسری طرف میرے سوتیلے عزیز جشن منارہے ہیں، میری تضحیک کررہے ہیں، قہقہے برسارہے ہیں۔ اور وہ لمحہ قریب آتاجارہا ہے جب وہ اس ایندھن میں نفرت کی آگ لگائیں گے۔آگ چاروں طرف پھیل جائے گی۔ تب یہ صحرا، یہ اندھا کنواں، یہ جنگل اور میں ... میری بے گناہی اور سچائی کے سارے نشان اس آگ میں جل کر فناہوجائیں گے۔ مٹ جائیں گے۔ اور میرے سوتیلے عزیزوں کے سوتیلے جذبوں کے ظلم کا کوئی ثبوت باقی نہیں رہے گا۔ تب میرے سوتیلے عزیزاپنی مرضی کے مطابق میری تاریخ لکھیں گے، تب وہ اطمینان سے لکھیں گے کہ:
میں بدکارتھااور میری بیوی بھی بدکار تھی اور میری ماں لونڈی تھی... مگر میرا باپ؟

**
میں پھر سوچنے لگتاہوں
میں جو صحرا میں پیاس کی شدت سے ایڑیاں رگڑ رہاہوں۔ ابراہیم کا بیٹا ہوں۔
اور میں جو جرم بے گناہی میں قید بھگت رہاہوں، ابراہیم کا پوتاہوں۔
اور میں جو جنگل میں بن باس کے دن کاٹ رہا ہوں۔ میں بھی ابراہیم کی آل سے ہوں کہ سچ کی راہ پر چلنے والے اور ظلم کو صبر کے ساتھ برداشت کرنے والے ابراہیم کی آل میں شمار ہوتے ہیں۔
میں وہی ہوں کنواریاں جس کے لئے ہزاروں برسوں سے انتظار کررہی تھیں۔
اور میں وہی ہوں۔۔چاندسورج اور ستارے جس کے آگے سجدہ ریز ہوں گے۔
اور میں وہی ہوں جو اپنے باپ کے تخت کا حقیقی وارث ہے۔
میں سوتیلے جذبوں کاشکار ہوں۔
میرے سوتیلے عزیز تاریخ کو جتنا مسخ کرلیں مگر وہ میرے باپ کا نام کیوں کرمٹاسکیں گے۔ کہ پھروہ خود بھی بے شناخت ہوجائیں گے۔
میں ابراہیم کا بیٹا ہوں۔
میں ابراہیم کا پوتا ہوں۔
میں آل ابراہیم سے ہوں۔
آگ ابراہیم کے لئے گلزار ہوگئی تھی تو مجھے کیونکر نقصان پہنچاسکے گی۔
’’آگ سے ہمیں مت ڈراؤ یہ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی بھی غلام ہے۔‘‘
یہ آسمانی آواز مجھے یقین دلاتی ہے کہ میری ایڑیوں کی رگڑ سے ایک چشمہ پھوٹ بہے گا اور اس کا پانی میری مدد کو آئے گا۔
مجھے جس اندھے کنوئیں میں گرایاگیاتھا آسمان سے اس میں اتنا پانی اترے گا کہ وہ کنواں چھلک پڑے گا اور بحر ہند کاٹھاٹھیں مارتا پانی سیلاب بن جائے گا۔
اور پھر سوتیلے جذبوں سے جھوٹے الزامات اور تہمتوں کے ایندھن میں بھڑکائی ہوئی نفرتوں کی ساری آگ بجھ جائے گی۔

**
میرے سوتیلے عزیزوں نے نفرت کی آگ لگادی ہے۔ اس آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کررہے ہیں۔ میرے چاروں طرف آگ پھیلی ہوئی ہے۔۔۔ سوتیلے جذبوں کی آگ..... مگر میں دیکھتاہوں کہ:
میرے بن باس کے دن ختم ہوچکے ہیں۔ میرا حق میرا تخت مجھے مل گیا ہے اور میری بیوی کی پاک دامنی کی شہادت خود تاریخ دے رہی ہے۔
میں دیکھتا ہوں کہ:
میری قید کی مدت ختم ہوگئی ہے۔ اور میں ایک اعلیٰ منصب پر سرفراز کیا گیا ہوں۔ اور چاند سورج اور ستارے میرے حضور سجدہ ریز ہیں۔
اور میں دیکھتا ہوں کہ:
تپتے ہوئے صحرا میں میرے ایڑیاں رگڑنے سے ایک چشمہ پھوٹ بہاہے ۔مری ماں کے چہرے پر خوشیوں اور مسرتوں کانور پھیلا ہوا ہے۔ وہ جو کسی قافلے کی امداد کی منتظر تھی اب ہزاروں قافلے اس کی مدد کے محتاج ہیں۔ اور اس بادشاہ زادی کو ایک نئی بادشاہت مل گئی ہے۔ اور ہزاروں برس سے میرا انتظار کرنے والی کنواریاں ،میرے گلے میں ڈالنے کے لئے اپنے ہاتھوں میں پھولوں کے ہار سجائے میری آمدکے گیت گارہی ہیں۔
اور میں یہ بھی دیکھتاہوں کہ بحر ہندکاٹھاٹھیں مارتاہواپانی، آسمان سے اندھے کنوئیں میں اترکراور پھر باہر چھلک جانے والا پانی اور میری ایڑیوں کی رگڑ سے پھوٹ بہنے والے چشمے کاپانی..... سب میری آنکھوں میں اتر آئے ہیں۔
سوتیلے جذبوں سے بھڑکائی ہوئی نفرتوں کی آگ بجھتی جارہی ہے اور اس آگ کے دوسری طرف میرے تمام سوتیلے عزیز حیرت اور خوف سے اس منظر کو دیکھ رہے ہیں۔
میں آگ کے مکمل طورپر بجھنے کا انتظارکرتاہوں۔
میں انتظار کرتاہوں جب تھوڑی دیر بعد میرے سارے سوتیلے عزیز مجرموں کی طرح میرے سامنے پیش ہوں گے۔
اور میں اس وقت کے آنے سے پہلے ہی اپنا فیصلہ لکھنے بیٹھ جاتاہوں۔
’’ لا تثریب علیکم الیوم
.....‘‘*

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*ترجمہ:آج کے دن تم سے کوئی مواخذہ نہیں کیا جائے گا۔
***

گلاب شہزاد ے کی کہانی

گلاب شہزاد ے کی کہانی

ہوا  شہکار  جب اس کا مکمل
وہ اپنے خون میں ڈوبا ہوا تھا

بے انت پھیلے ہوئے صحرا میں جب رات کا ایک پہر گزرنے کے باوجود کسی کو نیند نہ آئی تو چاروں درویش اٹھ کر بیٹھ گئے۔ پہلے درویش نے تجویز پیش کی کہ رات کاٹنے کے لئے اپنی اپنی کوئی کہانی سنائی جائے۔ سب نے اس تجویز سے اتفاق کیااور پہلے درویش سے کہا کہ وہ خود اپنی زندگی کی کسی کہانی سے ابتداکرے۔

لمبے بالوں والا پہلا درویش آگے کو جھکااور پھر یوں گویاہوا:
’’میری کہانی گلاب شہزادے کی کہانی ہے۔
گلابی رنگ کو تم بخوبی پہچانتے ہو۔ خون سرخ رنگ کاہوتاہے۔ خون میں سفید رنگ ملادیں تو وہ گلابی بن جاتاہے لیکن اگر خون ویسے ہی کہیں جم جائے تو سیاہ ہوجاتاہے۔خیرتو میں کہہ رہاتھا.. میری کہانی گلاب شہزادے کی کہانی ہے۔ لیکن اس کے لئے مجھے عملاًبتانا پڑے گا‘‘
یہ کہہ کر پہلے درویش نے اپنے تھیلے سے گلاب کی ایک قلم نکالی اور اسے ریت میں گاڑ دیا۔
’’میری کہانی کا باقی حصہ اس قلم کے بڑھنے تک ادھورا رہے گا۔ اس لئے بہتر ہے کہ آپ لوگ باری باری اپنی کہانیاں سنالیں..... میں آخر میں اپنی کہانی مکمل کروں گا۔‘‘
پہلے درویش کی اس بات پر دوسرے درویش نے اپنی کہانی شروع کی:
’’میری کہانی عام سی ہے۔ میری بیوی نے اپنی آنکھوں کے جادو اور ہونٹوں کے منتر سے مجھے گدھا بنادیاتھا اور میں کئی صدیوں سے بوجھ اٹھاتا چلا آرہاتھا۔ پھر ایک دن مجھے بھی ایک اسم مل گیا۔ میں گدھے سے انسان بن گیا اورتب میں نے اپنے اسم کے زور سے اپنی بیوی کو گھوڑی میں تبدیل کردیا۔‘‘
تیسرا اور چوتھا..... دونوں درویش اس کی کہانی بڑی دلچسپی سے سن رہے تھے جبکہ پہلا درویش گلاب کی اس قلم کو دیکھ رہا تھا جس کے ارد گرد چھوٹے چھوٹے کانٹے سے چپکے ہوئے تھے.... قلم آہستہ آہستہ بڑھ رہی تھی۔
’’اب مجھے صحیح طورپر یاد نہیں رہا کہ پھر میں نے اسے تانگے میں جوت دیا تھا،گھوڑدوڑ کے کلب میں لے گیا تھایا ویسے ہی اسے سرپٹ دوڑاتارہا.... یا پھر پتہ نہیں وہ خود ہی سرپٹ دوڑتی رہی.... دوڑتی رہی......‘‘
’’پھر کیا ہوا؟‘‘
تیسرے اور چوتھے درویش نے بڑے اشتیاق اور تجسس سے پوچھا۔
پہلا درویش ابھی تک گلاب کی اس بڑھتی ہوئی قلم کو دیکھ رہا تھا۔
’’پھر؟‘‘دوسرے درویش نے ذہن پر تھوڑا سازور دیا۔
’’پھر...جب میری بیوی اپنی پہلی تنخواہ لائی تھی تو اس کا چہرہ خوشی سے گلنار ہو رہا تھا۔ اس نے اپنی آدھی تنخواہ گھر کے اخراجات میں ڈال دی اور بقیہ آدھی بچوں کے مستقبل کے لئے بنک میں جمع کرادی اور پھر ہمیشہ ہی اس کا یہی طریق رہا۔ میری اور اس کی تنخواہ سے ہمارا گھر خاصا خوشحال ہوگیا۔ البتہ وہ اپنے باس کی بہت تعریفیں کرتی رہتی تھی۔ وہ اس کا ضرورت سے زیادہ ہی خیال رکھتے تھے‘‘۔
اچانک دوسرے درویش کی نظر گلاب کی اس قلم پر پڑی جو اس عرصے میں حیرت انگیز طور پر دو گنی ہوچکی تھی اور اب اس میں ننھے ننھے سبز پتے بھی پھوٹ رہے تھے۔ اسے یوں لگا جیسے کانٹوں میں لپٹی ہوئی گلاب کی پوری قلم کسی نے اس کے حلق میں ٹھونس دی ہو ۔
اس نے ایک جھرجھری سی لی اور پھر بے اختیارپکارا۔۔ ’’پانی.....!‘‘
پہلے درویش نے جلدی سے پانی کا کوزہ اس کے منھ سے لگادیا۔
گلاب کی قلم کچھ اور سرسبز ہوگئی اور سبز پتوں کے ساتھ ایک سرخ پتہ بھی ابھر آیا دوسرے درویش نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے یہ منظر دیکھا اور دم توڑدیا۔
باقی تینوں درویشوں نے دیکھاکہ بے انت پھیلے ہوئے صحرانے خود کو خاصا سمیٹ لیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔رات کا دوسرا پہر گزر چکا تھا۔

تیسرے درویش نے ایک گہرا سانس لیا اور اپنی کہانی شروع کی:

’’جیسا کہ آپ جانتے ہیں تاریخ اور جغرافیے سے مجھے گہری دلچسپی ہے اور مرا تعلق بھی آثارقدیمہ سے ہے..... تین بچوں کی پیدائش کے بعد میری بیوی نے مجھے مشورہ دیاکہ میں خاندانی منصوبہ بندی پر عمل کروں۔ چنانچہ میں نے غبارے استعمال کرنا شروع کردےئے.... مرا گھر خاصا چھوٹا اور تنگ سا ہے۔ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ استعمال کے بعد میں نے غبارہ نالی میں پھینکنے کی بجائے کونے میں پڑی بڑی میز کے پیچھے پھینک دیا۔ میز کے نیچے پڑے ڈھیر سارے کباڑ میں وہ غبارہ چھپارہتا۔ پھر کبھی خیال آتا تو اسے اٹھا کر نالی میں پھینک دیتا۔‘‘
چوتھادرویش اسے عجیب سی نظروں سے دیکھ رہاتھا۔
’’ایک دفعہ کسی کھنڈرسے کئی ہزار سالہ پرانی کھوپڑی دریافت ہوئی تو اس کے مطالعہ کے لئے مجھے بلایاگیا۔ کھوپڑی کے مطالعہ کے بعد جب میں گھر آیاتو اپنی میز کے نیچے کباڑ میں سے کوئی چیز ڈھونڈتے ہوئے مجھے ایک سوکھا ہوا مڑا تڑاسا غبارہ مل گیا۔ میں نے اسے دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا.... یوں لگ رہا تھا جیسے وہ کھوپڑی اس غبارے میں موجود ہو اور وہ کھوپڑی مرے اپنے بیٹے کی ہو‘‘
چوتھادرویش اس کی کہانی میں خاصی دلچسپی لے رہا تھا۔
پہلا درویش گلاب کی اس مسلسل بڑھتی ہوئی قلم کو دیکھ رہا تھا جس میں سے اب شاخیں بھی پھوٹنے لگی تھیں۔
’’میں خوف سے کانپ اٹھا۔ مجھے لگامیں نے اپنے بیٹے کو قتل کرکے اس کے سرکو محض کھوپڑی بنادیاہے۔ میں نے اپنی بیوی کو اپنا خوف بتایا۔ پہلے تو اس نے شور مچادیا ’’خاندانی منصوبہ بندی ختم نہیں کرنے دوں گی۔ مری صحت پھر تباہ ہو جائے گی‘‘ لیکن بالآخر مرا خوف اس کی ضد پر غالب آگیا۔
جس دن اس نے مجھے خوشخبری سنائی.... مجھے یوں لگا جیسے ہزاروں برس پہلے کھو جانے والی مری کوئی قیمتی چیز مجھے دوبارہ ملنے والی ہے۔‘‘
تیسرے درویش کی نظر گلاب کی اس قلم کی طرف اٹھ گئی جو اَب گلاب کے چھوٹے سے پودے میں ڈھل گئی تھی۔
اسے یوں لگا جیسے گلاب کا پودا اس کے اندر ہے اور کوئی اُسے اُس کے حلق سے باہر کھینچ رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔وہ خوف سے چلّایا:’’پانی....!‘‘
پہلے درویش نے جلدی سے پانی کا کوزہ اس کے منھ سے لگادیا۔
گلاب کا پودا کچھ اور پھیل گیااس کے سبز پتوں میں ایک اور سرخ پتہ ابھرآیا۔
تیسرے درویش نے خوفزدہ آنکھوں سے یہ منظر دیکھااور دم توڑدیا۔
باقی دونوں درویشوں نے دیکھا کے بے انت پھیلے ہوئی صحرا نے خود کو آدھا سمیٹ لیا ہے ،رات کا تیسرا پہر گزر چکاتھا۔

چوتھے درویش نے مشکوک نظروں سے پہلے درویش کو دیکھا اور قدرے چوکنّا ہوکر اپنی کہانی بیان کرنے لگا:

’’یہ کہانی دراصل میری نہیں۔میرے ایک دوست کی ہے۔ میں اسے اسی کی زبان میں بیان کروں گا‘‘
چوتھے درویش نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا۔
’’مرابھائی گہری نیند سویا ہواتھا میں اس کے کمرے میں بیٹھاکوئی کام کررہاتھا۔ اچانک میں نے دیکھا کہ مرے بھائی کی ناک سے شہد کی ایک مکھی نکلی..... قریب ہی پانی کا ایک ٹب پڑاتھا۔ جس میں لکڑی کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا تیر رہا تھاجو شاید کسی بچّے نے ڈال دیا تھا.... شہد کی مکھی اڑ کر لکڑی کے اُس ٹکڑے پر جا بیٹھی۔ کچھ دیر بعد پھر اُڑی اور مرے بھائی کی ناک میں داخل ہوگئی.... میں یہ منظر بڑی حیرت سے دیکھ رہاتھا‘‘۔
’’اچھا ۔پھر کیا ہوا؟؟‘‘پہلے درویش کی مسکراہٹ بڑی سفّاک تھی، وہ اب بھی گلاب کے اُس پودے کو دیکھ رہا تھا جو مسلسل پھلتا پھولتاجارہا تھا۔
’’پھر ۔۔پھر۔۔‘‘ چوتھا درویش خوفزدہ انداز میں اِدھر اُدھر دیکھ کر بولا:
’’پھر میرا بھائی بیدارہوگیا۔ اس نے اپناایک حیرت انگیز خواب سنایا.... اس نے بتایاکہ وہ کسی دریا کے کنارے کھڑا تھا کہ لکڑی کاایک بڑا سا تختہ تیرتا ہوا اس کے قدموں میں آگیا،وہ اس پر سوار ہوگیا۔ جب وہ تختہ اسے دوسرے کنارے پرلے گیا تو اس نے دیکھا کہ وہ جگہ خزانوں سے بھری پڑی ہے۔مگر وہ اکیلا یہ خزانے نہ اٹھا سکتا تھا، اس لئے دوسرے ساتھیوں کو لینے کے لئے واپس آگیا‘‘
’’حیرت ہے..... حیرت ہے!‘‘ پہلا درویش بڑے مکّارانہ انداز میں بولا۔ اس کی نظریں اب بھی گلاب کے اس پودے پر گڑی تھیں جو اَب بڑی شان سے لہلہارہا تھا، چوتھا درویش گھبرائے ہوئے لہجے میں بولا:
’’میں بھائی کا خواب سمجھ گیا۔میں نے اسے قتل کردیااور وہ جگہ جہاں ٹب پڑا تھا اور شہد کی مکھی لکڑی کے ٹکڑے پر تیرتی رہی تھی، اسے کھود ڈالا... وہاں واقعی خزانے تھے .... مگر.....مگر......‘‘
’’مگرکیا؟‘‘پہلے درویش کے لہجے میں تشویش کی ہلکی سی پرچھائیں ابھری۔
چوتھے درویش کی نظریں اس لہلہاتے ہوئے گلاب کے پودے پر پڑیں۔
اور پھروہی کیفیت.....
’’پانی.....!‘‘
پہلے درویش نے جلدی سے پانی کا کوزہ اس کے منہ سے لگادیا۔ مگر چوتھے درویش نے کوزہ اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔پانی پیا۔
پھر گلاب کے پودے میں ایک اور سرخ پتے کو ابھرتے ہوئے دیکھا۔
خوف سے جھرجھری لی۔
’’مگر کیا.....؟‘‘پہلے درویش نے اسے جھنجھوڑ کر پوچھا۔
’’مگر.....یہ کہانی مرے دوست کی نہیں..... مری اپنی ہے..... اپنی.....‘‘ اور پھر چوتھے درویش نے بھی دم توڑ دیا۔
سارے صحرا نے خود کو سمیٹ کر پہلے درویش کے قدموں میں ڈال دیا۔
رات کاآخری پہر گزرچکاتھا۔
پوپھوٹ رہی تھی۔
پہلے درویش کے وحشیانہ قہقہے صحر امیں گونجنے لگے۔
’’ہاہاہا..... اب اس صحرائی علاقے کی تیل کی دولت کا میں تنہا مالک ہوں۔ ایٹمی جنگ میں جتنے لوگ بھی بچ گئے ہوں گے سب مری رعایا ہیں..... اور میں اس نئے عہد کا حکمران..... عظیم حکمران..... ہا ہا ہا.....‘‘
اچانک اسے شدید پیا س کا احساس ہوا۔ اس نے کوزے کو دیکھا۔ کوزہ خالی ہوچکا تھا۔وہ گھبراگیا۔اور پھر پانی کی تلاش میں اِدھر اُدھر دوڑنے لگا۔
وہ دوڑ تارہا..... دوڑتا رہا.....
اور سمٹاہوا صحراپھیلتارہا..... پھیلتارہا.....
سورج نصف النہار تک پہنچ گیا۔
ا س کے سامنے تیل کے چشموں کاذخیرہ تھا، کنووں کی بجائے چشمے!
مگر پانی؟۔۔۔۔۔
پیاس کی شدّت،
شدید تھکاوٹ،
اور مسلسل پھیلتاہوا صحرا
وہ تیل کے چشمے پر ہی پیاس بجھانے کے لئے جھک گیا۔
**

اس کا آدھا جسم باہر پڑا تھا۔ سرپانی کے چشمے میں ڈوبا ہوا تھا۔پھیلی ہوئی بانہیں آدھی سے زیادہ چشمے میں اور باقی باہر اور..... لمبے لمبے بال پانی میں لہراتے تیر رہے تھے۔

اس کی مردہ آنکھیں بھی پانی کے چشمے کو تیل کا چشمہ سمجھ رہی تھیں۔
گلاب کے پودے پر ایک بڑا سا پھول اُگ آیاتھا۔
گلاب کے اس پھول کارنگ غیر معمولی حد تک گہراسیاہ تھا۔
گلاب شہزادے کی کہانی مکمل ہوچکی تھی۔
مگر نہ کوئی اسے سنانے والا تھا، نہ سننے والا
***

غریب بادشاہ

غریب بادشاہ

جو تجھ کو ملنے سے پہلے بچھڑ گیا حیدر
تو کس طرح اسے پانے کی آس رکھتا ہے

’’تساں بادشاہ ہواساں کوں غریبی‘‘

چلچلاتی دھوپ میں صرف ایک دھوتی میں ملبوس، سجدہ ریز اور دونوں ہاتھ جوڑ کر آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے، پسینے سے شرابور اس مجہول سے فقیر نے جس انداز میں یہ مصرعہ گاتے ہوئے پڑھاہے اس کا ایک ایک لفظ اپنی تمام تر معنویت کے ساتھ میری روح میں اتر گیا ہے۔ میں رک گیا ہوں اور حیرت سے اس مجہول فقیر کو دیکھ کر اپنی جیب میں ہاتھ ڈالتاہوں اور ایک سرخ نوٹ اس کے جوڑے ہوئے ہاتھوں میں پھنسادیتاہوں..... ماہ رخ نے میری اس سخاوت کو حیرت سے دیکھا ہے لیکن بولی کچھ نہیں۔ اس کے قرب سے مجھے لگتا ہے میں سچ مچ کا بادشاہ ہوں۔
**
’’میں جب بھی اس شہر میں آتاہوں یہاں کی کوئی نہ کوئی شے مجھے متاثر کرلیتی ہے، ہلاکر رکھ دیتی ہے‘‘
’’مثلاً؟‘‘
’’مثلاً..... پہلی بار جب میں آیا تو اپنی فرم کی طرف سے کمرشیل وزٹ پر آیا تھا مگر یہاں تم سے نہ صرف ملاقات ہوگئی بلکہ پہلی ملاقات میں ہی اتنی فرینک نیس ہوگئی جیسے ہم ازل سے ایک دوسرے کے ساتھی ہوں۔‘‘
’’ہوں!.....اور اس بار؟‘‘
’’اس بار.....اس مجہول فقیر کے گنگناتے ہوئے بول نے مجھے ہلاکر رکھ دیا ہے‘‘
’’کیاواقعی تم اس سے متاثر ہوگئے ہو؟‘‘
’’یقین کرو نہایت عجیب اور انوکھا سرور محسوس کررہاہوں۔‘‘
’’شاید تمہیں فو ک سانگس سے دلچسپی ہے!‘‘
’’ہاں شاید یہی وجہ ہو یا شاید.....‘‘
’’میں تمہارے لئے اس طرح کے گیتوں کی ایک کیسٹ تیار کروالوں گی لیکن تمہاری اتنی گہری دلچسپی کا آخر کوئی جواز بھی تو ہوگا؟‘‘
میں ماہ رخ کی طرف دیکھتا ہوں وہ پورے انہماک سے میرے جواب کی منتظر ہے۔
’’فوک سانگس سے میری دلچسپی کا پس منظر بڑا عجیب سا ہے۔
ایک دفعہ میں اپنے ایک دوست کے ہاں بھٹہ واہن گیا۔ وہاں مجھے پتہ چلا کہ سسّی کی جنم بھومی بھٹہ واہن تھی۔ وہاں کے راجہ کی بیٹی، سسّی جسے راجہ نے نجومیوں کے مشورے کے بعد صندوق میں بند کرکے دریا کے دھاروں کے سپرد کردیاتھا اور یوں وہ بھٹہ واہن سے بھنبھور پہنچ گئی۔‘‘

میں سسّی کی طرف دیکھتا ہوں وہ پورے انہماک سے اپنی داستان سن رہی ہے:

’’وہاں تمہاری پیدائش محل کے جس حصے میں ہوئی تھی اس کے کھنڈرابھی تک موجود ہیں۔ میں اس جگہ گیا تو میرا دل بھر آیا۔ روشنی کی ایک لکیر میرے اندر سے پھوٹی اور مجھ پر منکشف ہوا کہ میں ہی پنوں تھا۔ جو تمہیں تلاش کرتے ہوئے اس کھنڈر تک پہنچ گیا ہوں لیکن روشنی کی لکیر جو میرے اندر سے پھوٹی تھی وہ ایک دائرہ بن کر مجھے منور کرنے لگی تو مجھے محسوس ہوا کہ میں ہی پنوں تھا اور میں ہی مجنوں تھا، میں ہی فرہاد تھا اور میں ہی رانجھا تھا،میں ہی کرشن تھا اور میں ہی مہندرا تھا..... میں ہر روپ میں تمہیں ڈھونڈتا تھا اور تمہارے جتنے بھی نام تھے سسّی، لیلیٰ، شیریں، ہیر، رادھا۔ مومل سب ایک تھے اور میرے بھی جتنے نام ہیں سب ایک ہیں.... لیکن ہم صدیوں سے ایک دوسرے کی تلاش اور جستجو میں حصے بخرے ہوتے چلے جارہے ہیں اور ہمارے ہر حصے میں دکھ کی ایک کہانی بنتی چلی جارہی ہے۔۔۔۔۔۔‘‘
’’بھئی!یہ کیا حماقت ہے؟.....ہم لوگ کتنی دیر سے تمہارا انتظار کررہے ہیں کھانا ٹھنڈا ہورہاہے۔‘‘ماہ رخ کی چہکار نے مجھے جاگتی نیند سے بیدار کردیاہے۔ میں بے جان مسکراہٹ کے ساتھ اس کی طرف دیکھتا ہوں اور پھر ڈائننگ روم کی طرف چلنے لگتا ہوں۔
کھانے کے دوران ماہ رخ کے پاپانے کارخانوں کی پیداواری صلاحیت بڑھانے کا مسئلہ چھیڑاتو ماہ رخ نے کہا:
’’اس کے لئے مزدورکواعتماد میں لینا ضروری ہے۔ جب تک اسے شرکت کا احساس نہ دلایاجائے گا تب تک کارخانوں کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ نہیں ہوسکتا‘‘
’’نوجوانی میں پڑھے لکھے ذہنوں کو سوشلزم کا طلسم متاثر ضرور کرتاہے، پختگی آنے سے پہلے نوجوان ایسی ہی جوشیلی باتیں کرتے ہیں..... ا س بحث سے ہٹ کر دیکھیں تو آج کے مزدوروں کی فطرت کا یہ عالم ہے کہ ان کی دائیں مٹھی میں نوٹ دے دیں تو بایاں ہاتھ آگے کردیں گے، بائیں ہاتھ کو بھردیں تو دایاں ہاتھ آگے کردیں گے۔ جہاں نوٹ ملنے میں اسٹاپ آیاوہیں حق تلفی کے نعرے گونجنے لگیں گے۔‘‘
ماہ رخ کے پاپا کے لفظوں سے ایک منجھے ہوئے کارخانہ دارکی شخصیت اپنی جھلک دکھا رہی تھی ۔
’’میرا خیال ہے مل مالکان اور مزدوروں میں فاصلہ ملز انتظامیہ کی بداندیشی سے پیداہوتاہے۔ انتظامیہ کے افسران کی غلط پالیسیاں بھی نفاق کا باعث بنتی ہیں مثلاً میرے اِدارہ کے میرے ایک کولیگ جو ایک دوسرے ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ ہیں ان کی پالیسی یہ ہے کہ مہینے میں ایک دو بار ہر مزدور کو کسی سبب سے یا بلا سبب جھاڑضرور پڑنی چاہئے اس طرح یہ لوگ اپنی اوقات میں رہتے ہیں‘‘
’’کتنی گھٹیا ذہنیت ہے ایسے لوگوں کی‘‘ ماہ رخ اس وقت کسی کارخانہ دار کی بیٹی کی بجائے کسی مزدور یونین کی لیڈر لگ رہی تھی....’’بر صغیر کی تاریخ میں.....‘‘
لیکن اس سے پہلے کہ مزدوروں اور کارخانہ دار کا مسئلہ کوئی سنگین صورت اختیار کرتا ماہ رخ کے پاپا ہنستے ہوئے معذرت کرکے اٹھ گئے اور برصغیر کی تاریخ کے تذکرے سے بات کا رخ ہندوستانی کلچر اور تہذیب کی طرف مڑ گیا،
’’قدیم کلچر آج بھی کسی نہ کسی روپ میں ہمارے ساتھ ہے۔ جذباتی نعرے بازی کرکے اس سے فرار حاصل نہیں ہوسکتا۔ ہماری پیدائش سے لے کر شادی، بیاہ اور مرگ تک کی رسومات پر قدیم ہندوستانی کلچر کی چھاپ اتنی گہری ہے کہ کھرچنے سے بھی ختم نہ ہو۔‘‘
’’یہ ٹھیک ہے۔ لیکن اب ہماری اپنی تہذیب کا رنگ جمتا جارہاہے، اور ہماری اپنی تہذیب اس سے زیادہ خوبصورت ہے‘‘
’’یہ تہذیب بھی اس کلچر کے اثرات سے خالی نہیں،کلچر گم نہیں ہوتا بلکہ قدرے مختلف روپ میں پھر سامنے آجاتاہے۔‘‘
’’بابا!اس میں کلچر کاکیاکمال ہے۔ یہ تو دھرتی کا کمال ہے۔ جغرافیے کا کمال ہے۔ یہاں کی مٹی،یہاں کے دریا، پہاڑ، کھیت، جنگل، آب و ہوا، انہیں سے ہی تمہارے قدیم کلچر کی تشکیل ہوئی تھی اورانہیں عناصر ہی سے ہمار ی تہذیب بن رہی ہے اس میں جغرافیے کے ساتھ ساتھ ہماری ہسٹری بھی شامل ہوگئی ہے‘‘
اور پھر بحث اس اتفاق پر ختم ہوئی کہ قدیم ہندوستانی کلچر کے ایک مخصوص موضوع ’’رسم شادی‘‘ پر ایک تازہ ویڈیو فلم دیکھی جائے۔
**
گھنے جنگل کے درمیان ایک وسیع و عریض میدان،
گہری تاریک رات،
میدان کے ایک سرے پر ایک چبوترے پر قبیلے کا سردار اپنی قبائلی آن بان کے ساتھ براجمان ہے۔ اس کے پیچھے، دائیں بائیں جری کمان دار چوکس کھڑے ہیں۔ میدان کے وسط میں آگ کا بہت بڑا الاؤ روشن ہے۔ سردار کے دائیں ،بائیں دونوں اطراف سے لے کر میدان کے دوسرے سرے تک الاؤ کے گرد لوگوں کاایک دائرہ سا بن گیاہے، لوگوں نے اپنے سیاہ چہروں پر چکناہٹ مل کر خود کو چمکایا ہوا ہے، ڈھولک کی تھاپ گونجتی ہے اور پھر گونجتی ہی چلی جاتی ہے۔ پھر اس تھاپ کے ساتھ ایک عجیب سا سازاُبھرتا ہے۔ مجھے لگتا ہے میں اس ساز سے واقف ہوں لیکن کچھ یاد نہیں پڑتا۔ عجیب سا ساز ہے،ایک لمحے میں روح کی پاتال تک اتر جاتاہے اور دوسرے لمحے میں خوفزدہ کردیتا ہے۔ مسرت اور خوف کی عجیب سی کشمکش..... اچانک قبیلے کے سردار کی پاٹ دار آواز گونجتی ہے اور ڈھولک اور ساز کی آواز قدرے مدھم ہوجاتی ہے۔ سردار نے پتہ نہیں کیا کہا ہے ۔ ایک نوجوان لڑکی شرمائی شرمائی سی، اپنے ہاتھ میں موتیوں کی مالالئے آگے بڑھنے لگتی ہے۔
قبیلے کے سردار نے پھرکچھ کہاہے اور اب دو نوجوان لڑکے ایک ساتھ آگے بڑھ آئے ہیں۔ ڈھولک کی تھاپ اور اس مانوس سے ساز کی آواز ایک دم تیزہوجاتی ہے۔ جلتے ہوئے الاؤ کی سرخ زبانیں کچھ اور لمبی ہوگئی ہیں۔ وہ نوجوان لڑکی دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی ان نوجوانوں کی طرف بڑھ رہی ہے... اب وہ دونوں کے رو برو کھڑی ہے۔ دونوں نوجوانوں کے اوپر کے سانس اوپر اور نیچے کے سانس نیچے رک گئے ہیں.... ڈھولک کی تھاپ اور اس ساز کی آواز کچھ اور تیز ہوجاتی ہے۔ اور پھر.... لڑکی نے ایک نوجوان کے گلے میں ہارڈال دیا۔
مجھے پتہ نہیں کیاہوا، میں نے تیزی سے اٹھ کر وی سی آر کا سوئچ آف کردیا۔
’’یہ کیا؟‘‘ ماہ رخ نے الجھے ہوئے انداز میں پوچھا۔
’’بس۔اب آگے اس ہار جانے والے نوجوان کا حال نہیں دیکھا جائے گا۔ بے چارہ!‘‘
’’اس میں بے چارگی کی کیا بات ہے۔ قدیم ترین زمانوں میں تو لڑکی کے سارے امیدوار لڑتے تھے، ایک دوسرے کو قتل کرتے تھے۔ جو آخر میں فتح یاب ہوتاتھا وہ شادی کا حق دار بنتا تھا۔ یہ تو اس زمانے کے بعد کی فلم ہے‘‘
**
ماہ رخ کے پاپا کی فیکٹری سے متعلق ہمارے ادارے کا کام آج مکمل ہوگیاہے اورآج ہی میرا واپسی کا ارادہ ہے تاہم میں نے طے کیاہے کہ جانے سے پہلے ماہ رخ سے شادی کے مسئلہ پر بات کرہی لوں۔ ہماری دوستی جتنی تیزی سے بڑھی ہے اس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ہمیں رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوجانا چاہیے۔ یوں بھی آج صبح سے ہی ماہ رخ خاصے خوشگوار موڈ میں ہے۔ اس پیش کش سے اس کا خوشگوار موڈرومینٹک بھی ہوجائے گا۔
’’کیا تمہیں پتہ ہے میں اپنے مذہبی تہوار منانے کے ساتھ ساتھ دوسروں کے مذہبی تہوار بھی اسی عقیدت اور احترام کے ساتھ مناتی ہوں۔ کرسمس، بیساکھی، دیوالی......‘‘
’’یہ بڑی اچھی بات ہے اگر ساری قومیں اسی طرح ایک دوسرے کے جذبات کا احترام کرنے لگیں تو دنیا میں مذہب کے نام پر کبھی کوئی فتنہ فساد پیدا نہ ہو‘‘
’’آج کا دن میرے لئے دوہری خوشی لایا ہے۔ ایک تو یہ کہ آج بھی ایک تہوار ہے اور دوسری یہ کہ آج ہم ایک مقدس رشتے میں منسلک ہونے کا اقرار کریں گے‘‘
(مقدس رشتے کی بات سن کر میرادل مارے خوشی کے دھڑکنا بھول گیاہے، واقعی دل کو دل سے راہ ہوتی ہے۔ میں نے آج خود ماہ رخ سے رشتے کی بات چھیڑنی تھی مگر میرے بات کرنے سے پہلے وہ خود یہی بات طے کرچکی ہے)
’’میں نے کئی نوجوان دیکھے ہیں مگر کوئی بھی میرے معیار پر پورا نہیں اُترا۔ تم پہلے نوجوان ہو جس کی آنکھوں کی سچائی کو میرے دل نے تسلیم کیاہے اور جو صحیح معنوں میں میرے کڑے معیار پر پورا اُتراہے‘‘
(میرے انگ انگ میں مسرّت بھر گئی ہے)
’’میں نے ابھی ڈیڈی سے بات کی تھی وہ بھی میرے انتخاب پر بے حد خوش ہیں‘‘
(مسرّت میرے انگ انگ میں لبالب بھرنے کے بعد اب ندی کے دھاروں کی طرح چھلکنے لگ گئی ہے)
’’لاؤ اپنا ہاتھ اِدھر لاؤ‘‘
میں نے آنکھیں موند کر اپناہاتھ اس کی طرف بڑھادیاہے۔ بے خودی اور سر شاری کی کیفیتیں مجھے شرابور کررہی ہیں۔
’’آج کے دن بہنیں اپنے بھائیوں کو راکھی باندھتی ہیں۔ میرا کوئی بھائی نہیں جسے میں راکھی باندھتی لیکن آج میری زندگی کا یہ ادھوراپن ختم ہورہاہے‘‘
میرے دل ،دماغ اور سماعت پر سینکڑوں ایٹم بم گر گئے ہیں۔ آنکھیں کھول کر دیکھتا ہوں تو آنکھوں پر بھی ہزاروں ایٹم بم گر گئے ہیں۔ اس نے مجھے راکھی کے بندھن میں باندھ لیاہے،،
میرے اندر ایک گھناجنگل اُگ آیاہے اور جنگل کے درمیان ایک وسیع میدان میں (میرے سینے کے عین وسط میں) آگ کا ایک بہت بڑا الاؤ روشن ہے۔ سارا قبیلہ جمع ہے۔ ڈھولک کی تھاپ تیز ہوگئی ہے اور اس کے ساتھ ہی اس ساز کی آواز بھی تیز ہوجاتی ہے جو ایک لمحے میں روح کی پاتال تک اُتر جاتاہے اور دوسرے لمحے میں خوفزدہ کردیتاہے، میں اس ساز کو اب پوری طرح جان گیاہوں سب کچھ یاد آگیاہے۔ لڑکی نے موتیوں کا ہار دوسرے نوجوان کے گلے میں ڈال دیاہے، میں اپنی شکست کا منظر نہیں دیکھنا چاہتامگر اب وی سی آر کا سوئچ تو نہیں جسے آف کرکے فرار ممکن ہوسکتاہے۔ میرے اندر اور باہر میری شکست کے منظر ہیں۔
ماہ رخ نے سچ کہا تھا’’کلچر گم نہیں ہوتا بلکہ قدرے مختلف روپ میں پھر سامنے آجاتاہے‘‘
**
چلچلاتی دھوپ میں صرف ایک دھوتی میں ملبوس ،سجدہ ریز اور دونوں ہاتھ جوڑ کر آسمان کی طرف اُٹھائے ہوئے ،پسینے سے شرابور وہ مجہول فقیر اب بھی وہی مصرعہ گاتا چلا جا رہا ہے:
’’تساں بادشاہ ہو اساں کوں غریبی‘‘
میں نے پرس میں صرف واپسی کے کرائے کے پیسے رکھے ہیں اور جیبوں تک سے نکال کر سارے چھوٹے بڑے نوٹ اس فقیر کو دے دیئے ہیں۔
ماہ رخ نے تعجب سے مجھے دیکھ کر پوچھا ہے ’’یہ کیا؟‘‘
’’صرف واپسی کا کرایا‘‘
’’تساں بادشاہ ہو اساں کوں غریبی‘‘
اس عارفانہ کلام کی ایک نئی معنویت مجھ پر آشکار ہوتی ہے۔
ماہ رخ کے قرب سے میں اب بھی خود کو بادشاہ محسوس کرتاہوں مگر غریب بادشاہ
***

دُھند کاسفر

دُھند کاسفر

کسی کا جھوٹ جب اس عہد کی سچائی کہلایا
ہمارا  سچ  تو  خود  ہی  موردِ الزام  ہونا  تھا

’’گاڑی ٹھہرانا مقصود ہوتو زنجیر کھینچئے۔

بلاوجہ زنجیر کھینچنے والے کو پچاس روپے جرمانہ ہوگا۔‘‘
میں ٹرین کے ڈبے میں لکھی یہ تحریر حیرت سے پڑھتا ہوں اور اس کے اوپر لٹکی ہوئی زنجیر کو دیکھتا ہوں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ زنجیر کھینچنے سے یہ گاڑی کیسے رک سکتی ہے۔
آپی اپنی سیٹ پر بیٹھی ٹانگیں ہلارہی ہے۔
بلوساتھ والی مسافر خواتین کو مختلف چیزیں کھاتا دیکھ کر امی کو مخاطب کرتی ہے اور پھر ہنسنا شروع کردیتی ہے۔
’’امی....ہیں ہیں ہیں‘‘
امّی اسے گھورتی ہیں مگر ڈھائی سال کی بچی کو کیا پتہ کہ ماں کیوں گھور رہی ہے۔ امی نے اپنے ساتھ موجود بڑے سے تھیلے سے کھانے کی کچھ چیزیں نکال کر بلو اور آپی کو دی ہیں۔ آپی میرے حصے کی چیز لاکر مجھے دینے لگتی ہے۔
دوسال پہلے کی بات ہے جب ہم چار سال اور تین سال کے تھے۔ تایاجی ہمارے ہاں آئے تھے۔ پھر تھوڑی دیر کے لئے کہیں باہر چلے گئے تو آپی نے اور میں نے مشترکہ طورپر سوچا کہ ہمارے تایاجی گم ہوگئے ہیں اور پھر صلاح کی کہ ہم دونوں چل کر انہیں ڈھونڈتے ہیں۔ ہم بڑی خاموشی سے گھر سے نکل آئے۔ قریبی بازار تک آئے۔ پھر پتہ نہیں کیا ہوا۔ راستے گم ہونے لگے اور تایاجی کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہم خود گھر کا راستہ بھول گئے، نہ تایاجی ملے نہ گھر کا راستہ۔ سڑک کے کنارے کھڑے ہوکر ہم دونوں نے رونا شروع کردیا۔کسی شریف دوکاندار نے ہمیں اپنی دوکان پر بٹھالیا اور ڈھیر ساری مٹھائی بھی ہمارے سامنے رکھ دی۔ ہم نے مٹھائی کھانے کے ساتھ رونے کا عمل بھی جاری رکھا تاوقتیکہ تایاجی اور اباجی ہمیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہاں تک نہ آگئے۔ تب ہم مارے خوشی کے باقی مٹھائی اٹھانا بھی بھول گئے۔
’’بھائی! یہ لونا اپنی چیز۔ ‘‘
آپی کی آواز میں جھنجھلاہٹ ہے اور میں چونک اٹھتا ہوں۔
’’جی ۔ہاں۔آں۔‘‘میں اپنے حصے کی چیز لیتا ہوں اور پھر اسے وہ زنجیر اور اس کے نیچے لکھی تحریر دکھاتاہوں وہ بھی حیران ہوتی ہے مگر اس طرح ڈرکرامی کے پاس بھاگ جاتی ہے، جیسے اس کے دیکھنے سے ہی زنجیر کھنچ جائے گی اور گاڑی رک جائے گی.... بلو اپنے حصے کی چیز کھا کر پھر ان خواتین کی طرف دیکھتی ہے جو مسلسل کچھ نہ کچھ کھائے جاری ہیں اور پھر ’’امی..... ہیں ہیں ہیں‘‘ کی گردان شروع کردیتی ہے۔ امی پھر تھیلے میں ہاتھ ڈالتی ہیں۔
میں ان خواتین کی طرف دیکھتاہوں۔ ان میں سے ایک بے حد خوبصورت عورت مجھے بڑے غور سے دیکھ رہی ہے۔ مجھے عجیب سا محسوس ہوتاہے۔ اس کی نگاہوں سے سورج کی کرنیں میری جسم پر اترنے لگتی ہیں اور میں جیسے ایک دم جوان ہونے لگتاہوں۔ پانچ سے دس، دس سے پندرہ، پندرہ سے بیس اور بیس سے پچیس۔ اب میں پچیس سال کا بھرپور جوان ہوگیاہوں۔ مگر گاڑی کا سارا منظر بدل چکا ہے۔ زنانہ ڈبہ کی بجائے مردانہ ڈبہ ہوگیاہے۔ میرے پاس سیٹ بھی نہیں ہے۔ فر ش پر اکڑوں ہو کر بیٹھا ہوں اور سارے فرش پر بھی اتنا رش ہے کہ بیٹھے بیٹھے پہلو بدلنا مشکل ہے۔
ایک اسٹیشن پر مسافروں کاایک بڑا تیز ریلااندر آتا ہے۔ چھوٹے سے اسٹیشن پر اتنے مسافر!..... شاید کوئی بارات ہو۔ !گاڑی چلتی ہے تو مسافروں کے اوسان بحال ہونے لگتے ہیں۔ ایک مسافر نے ٹرین کے چیکر کو ایک ایسی گالی دی ہے کہ میرے چودہ طبق روشن ہوگئے ہیں۔ دوچار اور مسافروں نے بھی ایسی ہی گالیاں دیں تو پتہ چلاسارے بے چارے فرسٹ کلاس کے فرش پر بیٹھے تھے۔ سب سے دس دس روپے جرمانہ وصول کرکے بغیر رسید کے سب کو اس ڈبے میں دھکیل دیاگیاہے۔
گالیوں کا سلسلہ بڑھنے لگتاہے۔گالیاں ریلوے کے مختلف افسران سے ہوتی ہوئی ریلوے کے چیئرمین تک پہنچ چکی ہیں۔پھر وزیر ریلوے بھی اس کی زد میں آجاتے ہیں۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ بالکل میرے قریب بیٹھے ہوئے ایک ’’یک چشم‘‘ داڑھی والے نے دانت پیستے ہوئے بابائے قوم کو بھی گالی دے دی ہے۔میں سنّاٹے میں آگیاہوں۔
اس کی بدزبانی پر کوئی احتجاجی آواز بھی نہیں ابھری۔
مجھے لگتاہے ہم سب زمین میں دھنستے جارہے ہیں۔
گردن تک ہم زمین میں دھنس گئے ہیں۔
میرے اندرکاوہ پانچ سالہ بچہ نکل کر زنجیر کے پاس جا کھڑا ہوا ہے اور میرے اشارے کا منتظر ہے۔ میں اس یک چشم داڑھی والے کو سخت لعن طعن کرتاہوں۔
’’بابائے قوم کاکیا قصورہے؟ یہی کہ اس نے تمہیں آزادی دلائی ہے..... میں لمبی چوڑی تقریر کرتاہوں۔ مگر وہ یک چشم داڑھی والا بڑی متانت سے پھر وہی گالی بابائے قوم کا نام لے کر دہراتاہے۔
آخر میں اپنے اندر کے اس پانچ سالہ بچے کو اشارہ کرتاہوں کہ وہ زنجیر کھینچ دے مگر اس دوران ہی ایک بے حد خوبصورت خاتون سے اس کی آنکھیں چار ہوتی ہیں اور وہ جوان ہونے لگتاہے۔ پہلے وہ زنجیر کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ اب اس خوبصورت خاتون کو حیرت سے دیکھ رہا ہے۔ میں خودآگے بڑھ کر زنجیر کھینچ دیتاہوں۔۔۔۔۔۔’’اس خبیث کو ابھی گرفتار کراتاہوں۔ ذلیل انسان بابائے قوم کے دیس میں بابائے قوم کو گالیاں دیتاہے۔ ‘‘
گاڑی رک گئی ہے۔ ریلوے گارڈ، ٹکٹ چیکر اور کچھ پولیس والے آ چکے ہیں۔ میں انہیں بتاتاہوں کہ اس ذلیل شخص نے بابائے قوم کی شان میں گستاخی کی ہے۔ مگر شاید ریلوے کے عملہ کو میری بات سمجھ نہیں آتی۔ گارڈ اور چیکر میری بات سے جھلاگئے ہیں۔
اور پھر چیکر میرے جرمانے کی رسید کاٹنے لگتاہے۔
پچاس روپے جرمانہ ادا کرتے ہوئے میرے ہونٹوں پر وہی گالی مچلتی ہے جو اس سے پہلے وہ یک چشم داڑھی والا بابائے قوم کے خلاف بکتارہاتھا۔ مگر میں گالی کو ہونٹوں پر اترنے سے پہلے ہی روک لیتاہوں۔ پتہ نہیں بابائے قوم کے احترام کے باعث یا ان پولیس والوں کے باعث جو ریلوے گارڈ اور ٹکٹ چیکر کے ساتھ کھڑے ہیں۔اتنا ضرور ہے کہ میں ایک دم چھوٹا ہوتا جارہاہوں اور گھٹتے گھٹتے ایک نقطے میں ڈھل گیا ہوں۔ زنجیر کے نیچے کھڑا پانچ سالہ ’’میں‘‘ پھر حیرت سے اس تحریر کو پڑھ رہاہوں۔
’’گاڑی ٹھہرانا مقصود ہوتو زنجیر کھینچئے
بلاوجہ زنجیر کھینچنے والے کو پچاس روپے جرمانہ ہوگا‘‘
بلواپنے حصہ کی چیز کھاکرپھر ’’امی.... ہیں ہیں ہیں‘‘ کی گردان کررہی ہے۔آپی میرے حصے کی چیز لے کر پھر مجھے دے رہی ہے ۔مگر میں اب دانستہ آپی کی بات نہیں سن رہا کیونکہ مجھے معلوم ہے اس کے بعد ہی میری نظر اس خوبصورت خاتو ن کی طرف اٹھ جائے گی جو بڑی دیر سے مجھے دیکھ رہی ہے اور پھر....اور پھر میں خوف سے اپنی آنکھیں بند کرلیتاہوں اور بند آنکھوں سے ہی پڑھنے لگتاہوں:
’’گاڑی ٹھہرانا مقصود ہوتو زنجیر کھینچئے
بلاوجہ زنجیر کھینچنے والے کو پچاس روپے جرمانہ ہوگا۔
‘‘
***

آپ بیتی

آپ بیتی

اپنی کچھ نیکیاں لکھنے کے لئے بھی حیدرؔ
اپنے  ناکردہ  گناہوں  سے  سیاہی   مانگوں

 
(۱)

اس دن ماں نے مجھے معمول کے مطابق فجر کے وقت جگایا تھا مگر اس کالہجہ معمول کے مطابق نہ تھا۔ میں نے تاروں کی روشنی میں ماں کی آنکھوں میں تشویش جھلکتی دیکھی۔ ماں مشرق کی طرف دیکھ رہی تھی جہاں گہری سرخی پھیلی ہوئی تھی۔ لگتا تھا آسمان پر شفق پھوٹنے کی بجائے خون پھوٹ بہاہے۔
اس دن سارا شہر خوفزدہ تھالوگوں کی نظریں اخبارات کی خبروں پر جم کر رہ گئیں۔
*ٹریفک کے حادثے میں بیس افراد ہلاک اور تیس شدید زخمی۔
*ملزمان پندرہ روز تک مجھے مسلسل بے آبرو کرتے رہے۔ برآمد کی جانے والی مغویہ کا بیان۔
*ایک نوجوان نے محبت میں ناکام ہو کر محبوبہ کو ہلاک کردیا۔
*سگے باپ، بھائی اور بھابھی کو قتل کردیا، خانگی جھگڑے کا شاخسانہ۔
ساری خبریں معمول کے مطابق تھیں مگر اس دن یہ ساری خبریں غیر معمولی لگ رہی تھیں۔ لگتا تھا ہر خبر کا آسمان کی سرخی سے کوئی تعلق بنتاہے۔
اس دن شہر میں بہت سی بھڑیں آگئی تھیں۔ پہلے شہر میں جس طرح مکھیاں بھنبھناتی تھیں اب ویسے ہی بھڑیں اڑتی پھرتی تھیں۔
ا س دن شدید گرمی کے باعث میں نے قمیص اتاررکھی تھی اور بنیان پہنے اپنی کرسی پر بیٹھااس دن کی ڈاک دیکھ رہاتھا۔ ڈاک میں دیگر خطوط کے ساتھ میری ایک بہت ہی اچھی دوست کا خط بھی تھا۔ جونہی میں اس کا خط پڑھنے لگا مجھے اپنے سینے پر شدید جلن محسوس ہوئی۔ایک بھڑ نے میرے سینے پر ڈنک مارا تھا۔ میں تکلیف کے عالم میں ماں کے پاس آیاتو اس نے لوہے کی کسی چیز کو ڈنک والی جگہ پر رگڑتے ہوئے دم کیا اور میری تکلیف بڑی حد تک دور ہوگئی پتہ نہیں اس دم کی وجہ سے یا ماں کی وجہ سے یا شاید دونوں کی وجہ سے!
اس دن شام کو غروب آفتاب کے بعد آسمان کی طرف پھر ویسی ہی گہری سرخی چھاگئی اور دن بھر کے پریشان لوگ اور زیادہ خوف زدہ ہوگئے ۔یہ سارے واقعات صرف اس دن ہی غیر معمولی لگے۔طلوع آفتاب سے پہلے اور غروب آفتاب کے بعد اب بھی آسمان گہرا سرخ ہوتا ہے۔ بھڑیں اب بھی شہر میں دندناتی پھرتی ہیں۔ قتل، اغوا، ایکسیڈنٹ اور آبرو ریزی کے واقعات اب بھی ہوتے ہیں مگر لوگ اب پہلے کی طرح پریشان نہیں ہوتے۔ انہوں نے آسمان کی سرخی کو بھی معمولات زندگی میں شمار کرلیاہے۔ لیکن میں دیکھتا ہوں کہ میری ماں کی آنکھوں میں ابھی تک تشویش جھلک رہی ہے۔ وہ اپنی تشویش سے آگاہ کرکے مجھے پریشان نہیں کرنا چاہتی لیکن میں نے راتوں کو دیکھا ہے کہ وہ کئی دفعہ اٹھ اٹھ کر، آسمانی صحیفوں کی دعائیں پڑھ پڑھ کر ،مجھے سوتا جان کر مجھ پر دم کرتی رہتی ہے۔ ایک دو دفعہ میں نے سناوہ میرے باپ سے آہستہ آواز میں اپنی تشویش کا اظہار کررہی تھی اور میرے باپ نے آسمان کی سرخی کو خدا کی ناراضگی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا تھا کہ دنیا پر عنقریب بہت بڑی تباہی آنے والی ہے۔ اپنی ماں اور باپ کی اس تشویش کو دیکھ کر مجھے بھی کبھی کبھی تشویش ہونے لگتی ہے۔
جب پہلے پہل لوگوں نے خوف کا اظہار کیاتھاتب و ہ بھی اس آسمانی تبدیلی کو اجتماعی زاویے سے دیکھ رہے تھے اور میرے ماں باپ بھی اسے کسی اجتماعی تباہی کا پیش خیمہ سمجھ رہے ہیں۔ لیکن ماں راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر مجھے کیوں دَم کرتی رہتی ہے؟ اس سوال نے مجھے اس سارے معاملے کو انفرادی زاویے سے دیکھنے کی تحریک کی ہے اور میں آسمان کی سرخی کو اپنی ذات کے حوالے سے سوچنے لگتا ہوں۔

(۲)
 
’’رات دو بجے....عقبی دروازہ.....ٹھیک!‘‘
میں اس بے ربط مگر معنی خیز تحریر کو پڑھتا ہوں اور اس خوبصورت لڑکی کا سراپا مجھے اپنے پورے وجود میں خوشبو بکھیرتا محسوس ہوتاہے جو ایک عرصے سے میرے دل و دماغ پر چھائی ہوئی ہے۔ میری ایک بہت ہی اچھی دوست نے مجھے کئی دفعہ اس خوبصورت لڑکی سے لاتعلقی کی نصیحت کی تھی۔ مگر میں نے ہمیشہ اس کی نصیحت کو نظرانداز کیا۔ اور آج جب اس خوبصورت لڑکی نے مجھے اپنے ہاں مدعو کیاہے تو میرے ذہن میں خودبخود گناہ کا تصوّر ابھرنے لگتاہے۔ ماں سے طبیعت کی خرابی کا بہانہ کرکے میں بیٹھک میں آکر بظاہر سوجاتاہوں۔
ا س وقت رات کے آٹھ بجے ہیں اور میں نے لیٹے ہی لیٹے دائیں طرف کروٹ بدل کر خیال ہی خیال میں اس خوبصورت لڑکی کو اپنے پہلو میں سلالیا ہے۔ میری سانسوں کی رفتار تیز ہوگئی ہے۔ اور عین اس وقت جب میں کلائمکس پر پہنچنے لگاہوں میں نے اس کا چہرا اپنے ہاتھوں میں تھام کر اس کے ہونٹوں کا بھرپور بوسہ لینا چاہا ہے.... مگر مجھے جیسے یکدم کرنٹ لگ گیاہے۔ میرے ہاتھوں میں جو چہرا ہے وہ ہو بہو میری بیٹی کا ہے۔ میری ننھی بچی.... جیسے ایک دم جوان ہو کر میرے ساتھ لیٹی ہو۔ میں خوف زدہ ہو کر بیٹھک سے نکل کر باہر سڑک پر آجاتا ہوں۔ اور کھلی ہوا میں لمبے لمبے سانس لینے لگتاہوں۔
کافی دیر بعد میں دوبارہ اندر آتاہوں۔نیند میری آنکھوں سے کوسوں دور ہے۔ میں پھر بستر پر لیٹ جاتاہوں مگر خوف کے باعث اب بائیں کروٹ لیٹتاہوں۔ لیٹتے ہی وہ خوبصورت لڑکی پھر میرے پہلو میں آگئی ہے اور.....اور.... نہ چاہتے ہوئے بھی میں پھر اس کے جسم کو اپنی بانہوں میں سمیٹ کر اپنے پورے وجود میں سمونے لگتاہوں۔ اپنے سارے عمل کے دوران میں شعوری طورپر کوشش کرتاہوں کہ اس کا چہرہ نہ دیکھوں۔ مگر ....اس نے اپنے ہاتھوں میں میرا چہرہ تھام لیاہے میں قدرے جھجکتے ہوئے اس کی طرف دیکھتا ہوں۔ یہ چہرہ میری بیوی کا ہے۔ خیر کوئی بات نہیں۔ میری بیوی ایک ماہ سے میکے گئی ہوئی ہے۔ اس کی عدم موجودگی کے باوجود اس کی موجودگی میں کوئی حرج نہیں۔ میں اس کے جسم کو اور بھینچ لیتاہوں۔ لیکن مجھے پھر کرنٹ لگتا ہے.... میں نے اپنے آپ کو دیکھا تو میری جگہ کوئی اور تھا۔
میں پھرخوفزدہ ہوکر سڑک پر نکل آتاہوں اور کھلی ہوا میں لمبے لمبے سانس لینے لگتا ہوں مجھے محسوس ہوتاہے کہ آسمان کی خونی سرخی دراصل میرے اس ہونے والے ریپ کی گواہ اور اس خوبصورت لڑکی کے بہنے والے خون کا ثبوت ہے۔ لیکن ہم دونوں میں اصل مجرم کون ہے؟
مری اس اچھی دوست نے ایک دفعہ جھلاکر مجھے کہا تھا’’آپ دونوں ایک دوسرے کے لئے مخلص نہیں ہیں صرف اپنے جذبات کی تسکین کے لئے ایک دوسرے سے فراڈکررہے ہیں‘‘..... لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ میں نے بڑے بڑے مخلص دوستوں کو بھی ذاتی مفاد کی خاطر انتہائی گھٹیا سطح پر اترتے دیکھا ہے خود میری اس اچھی دوست نے میرے ساتھ زبردست فراڈ کیاہے۔ ایسا فراڈ جو ابھی تک وہ خوبصورت لڑکی بھی میرے ساتھ نہیں کرسکی۔
**
عشق کے روایتی قصوں میں ایسے واقعات ضرور ملتے ہیں مگر رات کو کسی سے چوری چھپے ملنے جانا میری زندگی کا پہلا تجربہ ہے۔ گہری سیاہ رات میں پکڑے جانے کا کوئی خوف نہیں لیکن جب میں اس کے دروازے پر ہلکی سی دستک دینے لگتاہوں تو اچانک روشنی میں نہاجاتاہوں۔ مجھے لگتاہے سارا شہر میرے تعاقب میں نکل آیاہے اور میں رنگے ہاتھوں پکڑلیا گیاہوں۔ میں گھبراکرچاروں طرف دیکھتا ہوں۔ میرے چاروں طرف گھوراندھیرا ہے، پھر میں کس روشنی میں نہاگیاہوں؟ کہیں یہ مرے اندر کی روشنی تو نہیں؟.... مرے شجرے کی روشنی؟
دروازہ کھل گیاہے اور میں اپنے سوالوں کے جواب سوچے بغیر اندر داخل ہوگیاہوں۔ کمرے میں صرف ایک چارپائی اورایک کرسی پڑی ہے، لیکن ہم دونوں چارپائی پر ایک ساتھ بیٹھتے ہیں۔ اس نے اپنی کمر کابوجھ مرے اس بازو پر ڈال رکھاہے جو میں نے اس کی کمر میں حمائل کررکھاہے۔ گپ شپ کرتے ہوئے اچانک مجھے محسوس ہوتاہے کہ میری بیوی اور میری بیٹی دونوں میرے دائیں بائیں آن کھڑی ہیں۔ وہ دونوں مجھے میرے دونوں بازوؤں سے پکڑ لیتی ہیں، سامنے میری وہ اچھی دوست اپنا منہ دوسری طرف پھیرے کھڑی ہے۔ میں عین موقعہ پر پکڑ لئے جانے کی شرمندگی کے ساتھ باہر آنے لگتاہوں۔ وہ خوبصورت لڑکی مجھے حیرت سے دیکھتی ہے۔
واپس آکر میں ٹائم دیکھتاہوں۔ تین بج رہے ہیں۔ بستر پر لیٹتے ہی مجھے گہری نیند آجاتی ہے.....
ماں حسب معمول فجر کے وقت مجھے جگاتی ہے تو میں بمشکل آنکھیں کھول پاتا ہوں۔ ماں کے چہرے پرفکرمندی کے گہرے اثرات ہیں۔وہ بھرائی ہوئی آواز میں مجھے بتاتی ہے کہ آج آسمان پہلے سے بھی زیادہ سرخ ہے۔ میں کمرے سے باہر نکل کر آسمان کی طرف دیکھتا ہوں اور پھر حیرت سے ماں کا چہرہ تکنے لگتا ہوں۔
’’ماں!آج تو آسمان پر معمولی سرخی بھی نہیں ہے۔ بالکل صاف آسمان ہے‘‘
ماں مجھے تشویشناک نظروں سے دیکھتی ہے اور پھر غالباً مجھ پر دَم کرنے کے لئے کوئی آیت پڑھنے لگتی ہے....میں کمرے میں آکر بڑے آئینے کے سامنے اپنے بال درست کرنے لگتاہوں، بال درست کرتے ہوئے مجھے اپنی آنکھیں لال انگاروں کی طرح نظر آتی ہیں۔ مجھے لگتاہے آسمان کی ساری سرخی مری آنکھوں میں اتر آئی ہے۔ میں نے انفرادی زاویے سے آسمانی سرخی کا بھید پالیاہے.... ماں کمرے میں آکر مجھ پر پھونکیں مارتی ہے، مجھے لگتاہے وہ کہنا چاہتی ہے کہ مجھے تمہارے رات کے سارے عمل کا پتہ ہے لیکن پھر میرے شرمندہ ہونے کاخیال کرکے چپ چاپ لوٹ جاتی ہے۔ میں وضو کرنے کے لئے باہر آنے لگتاہوں تو ایک کتاب پر ایک بھڑ کو بیٹھا دیکھتاہوں.... ایک دوسری کتاب اٹھاکر میں نے اس بھڑپر دے ماری ہے اور اسے اس کے ڈنک سمیت ختم کردیاہے.... اس کے ساتھ ہی مجھے اپنی اس اچھی دوست کا خیال آجاتا ہے جس کی ایک زیادتی کے باعث میں اس سے ناراض ہوں۔
ممکن ہے وہ بھی اپنی زیادتی پر نادم ہو اور اس ندامت کا احساس آسمان کی ساری سرخی اس کی آنکھوں میں بھی بھردے.... ممکن ہے آج شام کو غروب آفتاب کے بعد مری طرح اسے بھی آسمان خون آلود نظرنہ آئے اور وہ بھی میری طرح انفرادی زاویے سے آسمان کی سرخی کا بھید جان لے.... اور ممکن ہے وہ بھی کسی بھڑ کو اس کے ڈنک سمیت ماردے۔
میں اس خوبصورت لڑکی کے بارے میں بھی کچھ سوچنا چاہتاہوں لیکن فی الحال میں طے کرتاہوں کہ آج ناشتے کے بعد تازہ اخبارکا مطالعہ نہیں کروں گا۔ قتل، اغوا، زنا، ایکسیڈنٹ کی خبریں تو روز کا معمول ہیں۔ آج میں ناشتے کے بعد اپنی اس اچھی دوست کا خط پڑھوں گا جس سے میں ناراض ہوں۔
وہی خط جسے پڑھتے وقت بھڑ نے میرے سینے پر ڈنک مارا تھا۔

***